کالم

لہو کے پیاسے۔۔۔!

دنیا کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ کرسٹوفر کو لمبس نے1492ء میں امریکہ دریافت کیا ، جب وہ ہندوستان کیلئے نئے راستے کی تلاش کیلئے گامزن تھا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے 1178ء میں امریکہ دریافت کیا تھا۔مسلمانوں نے وہاں مقامی افراد کو زبردستی مسلمان نہیں کیا کیونکہ اسلام سلامتی کا مذہب ہے اور اس میں قطعی کوئی جبر نہیں، اسلام تلوار سے نہیں بلکہ حسن سلوک کے باعث پھیلا۔مسلمان تجارت کی غرض سے جہاں گئے ہیں ،وہاں صرف تجارت کی، وہاں کے لوگوں کو غلام نہیں بنایا اور نہ ہی اُن کے وسائل پر قبضہ کیا۔مسلمان باحیثیت حکمران جہاں جس سواری پر گئے ، دورانیہ ختم ہونے کے بعد اُسی سواری پر خالی آئے۔ مسلمانوں کے بعد میں امریکہ پہنچنے والوں نے ریڈانڈین کے ساتھ چار ہاتھ کیے اور افریقہ باشندوں کو غلام بنا کر اُن کی تذلیل کی ، اس کے بارے میں سب کو جانکھاری ہے۔
"یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے”
ریڈ انڈین کو نست و نابودکردیا، ریڈ انڈین کو تمام کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس سلسلے کو دنیا کے دیگر حصوں تک پھیلا یا،جہاں مفادات دیکھے اور جہاں کچھ نظر آیا، وہاں دوڑ کر گئے اور لاکھوں انسانوں کا خون اپنے نام کردیا۔ زیادہ دور نہ جائیں،6 اگست 1945ء کو ہیرو شیما پر اٹیمی حملہ کیا جس سے ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور اس کے تین دن بعد9 اگست 1945ء کو نا گا ساکی پر اٹیم بم گرایاجس میں ستر ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان دو اٹیمی حملوں میں کم وبیش تین لاکھ افراد لقمہ اجل بنے۔اس کے بعد اب تک کم وبیش30ممالک پر حملے کیے اور کروڑوں معصوم انسانوں کو موت کے دہانے پر پہنچایا۔عراق پر جراثیمی اور مہلک ہتھیارکا بے بنیاد الزام لگایا ، اپنے چیلوں سمیت عراق پر یلغار کیا جس میں دس لاکھ افراد ہلاک اور 80 لاکھ افراد بنیادی سہولیات سے محروم ہوئے، عراقی صدر صدام حسین کو عید کے دن تختہ دار پر چڑھایا۔عراق سے کتنے جراثیمی اور اٹیم بم برآمد ہوئے اور وہ بم کہاں لے گئے ہیں؟ کیا دنیا والوں نے پوچھنے کی جسارت کی؟کیا دنیا والوں نے اُن کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا؟ اہل دنیا نے محض خاموشی کا مظاہرہ کیا بس۔ کہنے کو دنیا میں 57 مسلم ممالک ہیں مگر ان میں اتحاد نام کی چیز نہیں ہے، مسلمان ممالک زبانی جمع تفریق تک محدود ہیں ، حالانکہ اُمت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہیں،جسم کے کسی حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم اضطراب کا شکار ہوتا ہے۔مسلمان ممالک اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے رہے اور وہ بربریت کرتے رہے۔9/11 کا ڈرامہ رچایاگیا اور پھر بدمست ہاتھی کی طرح اپنے حواریوں سمیت افغانستان پر چڑ ھ دوڑے،لاکھوں ٹن بارود گرایا گیا، نہ بچوں ، نہ عورتوں ، نہ مریضوں اور نہ ہی بزرگوں کا لحاظ رکھا، اس جنگ میں اڑھائی لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ اللہ پاک نے افغانیوں کو برداشت اور صبر کے جذبے سے نوازا، محدود وسائل کے باوجود دشمن کا مقابلہ کیا اور دشمن دُم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوا۔شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اون کے مطابق اسرائیل کوئی ریاست نہیں بلکہ امریکی بدمعاشی کا اڈہ ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر عقوبت خانوں میںہزاروں عربوں کو پابند سلاسل رکھا، عربوں کا قتل عام کیا ، آس پاس سب ممالک پر حملے کیے ، اُن سے زمین اور وسائل چھینے لیکن سب خاموشی سے ستم برداشت کرتے رہے ہیں کیونکہ اب وہ عرب نہ رہے جونہ دشت سے اور نہ ہی سمندر سے خوف زدہ ہوتے تھے، انھوں نے سمندروں میں بھی گھوڑے دوڑایے تھے۔
"دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِظلمات میں دوڑایئے گھوڑے ہم نے”
اسرائیل نے7 اکتوبر2023ء سے فلسطینیوں کے قتل عام کا ایک اور دُورکا آغاز کیا، جس میں فلسطینیوں کے بچوں ، بچیوں ، عورتوں سمیت سب کو اندھا دھند قتل کیا، نہ سکولوں کو چھوڑا اور نہ ہی ہسپتالوں کو، سب عمارتوں کو ملیاملیٹ کردیا،فلسطینوں کے خیموں پر بھی بمباری کی اور جو فلسطینی موت سے بچے،اُن پر خوراک اور پانی بھی بند کیا۔اس ظلم وجبراورحقوق کی پامالی پرانسانی حقوق کے علم بردار، بچوں اور عورتوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والے ایسے خاموش ہیں جیسے سب کو سانپ نے سونگھ لیا۔ملالہ پر پٹاخہ چلا یا نہیں سب نے آسمان سر پر اٹھایا، شور وغوغا کیا، ہنگامہ برپا کیا مگر فسلطین کی بچیوں اور خواتین کے معاملے میں سب نے آنکھیں اور کان بند کیے۔ان کوپاکستان میں18سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کی فکر لاحقہ ہے جس پر تقریباً اربوں روپے خرچ کیے گئے، منفی پروپیگنڈے گئے اور قوانین منظور کروائے، اُسی پاکستان میں شادی کے انتظار میں لاکھوں خواتین کے بال سفید ہوگئے مگر اُن خواتین کی کسی کو فکر نہیں۔ دوہرا معیار اور منافقت کاباب بند ہونا ناگزیر ہے۔ سب انسانوں کیلئے ایک معیار ہونا چاہیے،لڑکی اور عورت امریکہ کی ہو یا فلسطین کی، یورپ کی ہو یا افریقہ کی ہوسب لڑکیاں اور خواتین برابر ہیں۔اسرائیل نے فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھانے پر اکتفا نہیں کیا،ساتھ ایران کا نمبر بھی لگادیا تاکہ پاکستان کا نمبر جلد آ جائے۔قبل ازاںانڈیا کے ذریعے بھی پاکستان کا نمبر لگانے کی کوشش کی مگر افواج پاکستان نے اُن کی سب تدبیریں اُلٹ کردیں۔ پھر انھوں نے ایران پر حملہ کردیا، وہ ایران کو کچھ اور سمجھ بیٹھے تھے مگر ایران نے محض چند میزائل فائر کیے تو اُن کے ہوش ٹھکانے لگے، چیخ و پکار اور منت سماجت شروع کی ۔جب اسرائیل کو مار شروع ہوئی تو امریکہ کو کب چین آنا تھا؟ امریکہ نے فردو، نطنز اور اصفہان کے جوہری تنصیبات پر حملہ کیا جبکہ اسی دوران امریکہ مذاکرات کی باتیں کرتا رہا۔امریکہ پر اعتبار کیسا کیا جاسکتا ہے؟ امریکہ اور اسرائیل اپنے دفاع کیلئے اٹیمی ہتھیار بنانا اور استعمال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن اُن کی جارحیت روکنے کیلئے کوئی دوسرا ملک جوہری صلاحیت حاصل کرنا چاہے تو امریکہ نہ صرف اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کروادیتا ہے بلکہ اس کے اٹیمی پروگرام کو تباہ کرنے کی مقصد سے ان پر یلغار کردیتا ہے ۔ قارئین کرام! حقیقت یہ ہے کہ تمام انسانوں کی تخلیق ایک ہے مگر سیاسی، مذہبی اور معاشی پنڈتوں نے انسانوں کو ایک دوسرے کے ” لہو کے پیاسے "بنا دیے ہیں ۔ تقاضا یہ ہے کہ سیاست، مذہب اور معیشت کیلئے انسان کو دکھ ،غم اور الم میں مبتلا نہ کریں اور انسانوں میں خلیج پیدا نہ کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے