گزشتہ سے پیوستہ
اس تحریک کی فلسطینی شاخ 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد فلسطین کی آزادی کےلئے پاپولر فرنٹ بن گئی۔اس نے انپے گروپ سے کہا یہودیوںکیخلاف چھوٹی موٹی کارروائیوںکی بجائے کوئی ایسا کام کیا جائے کہ دنیاپرصیہونی مظالم اجاگرہوسکیں اسی مقصدکے پیش نظر لیلیٰ خالد اور انکے ساتھیوں نے 1968ء اور1971ء کے درمیانی عرصے میں 4 جہاز اغوا کئے۔ تاریخ بتاتی تھی فلسطین لبریشن فرنٹ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد لیلیٰ خالد نے پہلاجہاز 29اگست 1969ءکو اغوا کیا یہ بوئنگ 707جہاز تھا جو اٹلی سے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب جا رہا تھا انہیں اطلاع ملی تھی کہ اس جہازمیں اسرائیلی وزیر اعظم اضحاک رابن بھی سفرکررہے ہیں جب جہاز ایشیاءکی فضائی حدود میں داخل ہواتو ڈرامائی اندازمیں ایک نقاب پوش خاتون نے جہاز کا کنڑول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس نے پائلٹ کو حکم دیاکہ فلسطینی شہر حیفہ کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے جہاز کا رخ دمشق کی طرف موڑ دے دراصل لیلیٰ خالد دمشق جانے سے پہلے میں اپنی جائے پیدائش، وطن مالوف حیفہ کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ خاتون اور ا±س کے ساتھی بموں سے مسلح تھے۔ پائیلٹ نے بادل ِ نخواستہ حکم کی تعمیل کی چنانچہ جہاز دمشق میں اتار لیا گیا ہائی جیکروںنے مسافروں کو یرغمال بناکرفلسطین کی آزادی کا مطالبہ کی گیا جس سے پوری دنیا کی توجہ فلسطینیوں پر صیہونی مظالم کی طرف مبذول ہوگئی جب لوگوںکو معلوم ہوا کہ ہائی جیکر ایک خاتون ہیں تووہ بے حد حیران ہوئے،فلسطینی نعرے لگاتے ہوئے گھروںسے باہرآگئے اس روز مظلوم فلسطینیوںکے حالات کے بارے میں پہلی بار دنیا پر واضح ہوئے شہرہرملک ملک فلسطینیوںکے حق میں مظاہرے شروع ہوگئے مذاکرات کے بعد اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور ہائی جیکروں کی بحفاظت واپسی کی شرائط پر تمام یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا یہ فلسطینیوںکی پہلی فتح تھی دنیا بھر کے ٹیلی وژن چینلوں اور اخباراتنے لیلیٰ خالد کے انٹر ویو نشر اور شائع کئے۔ وہ عالم اسلام کی آنکھ کا تارا بن گئی۔ ا±ن کی تصویروں کو اتنی شہرت ملی جو اس سے پہلے کسی مسلمان خاتون کو نہیں ملی تھی۔مقبولیت کا یہ حال تھا کہ یورپ میں رہنے والی لڑکیوں نے اس کے اسٹائل کو بالوں سے لےکر سکارف تک کاپی کرلیااور لیلیٰ خالد جو انگوٹھی پہنتی تھی اس میں کوئی نگینہ یا پتھرنہیں گولی جڑی ہوئی تھی اس کا یہ اندازبھی مقبول ہوگیا۔ کہا جاتاہے کہ 6 ستمبر ، 1970 کو ، نیکاراگوان کے امریکی ، خالد اور پیٹرک آرگیلو نے ایمسٹرڈیم سے نیو یارک شہر جانے والی ال ال فلائٹ 219 کو ہائی پاس کرنے کی کوشش کی ، ڈفسن کے فیلڈ ہائیے قبل ارگیلو کو ہلاک کردیا۔ اگرچہ اس وقت وہ دو دستی بم لے کر جارہی تھی ، لیلیٰ خالد کو پرواز کے دوران مسافروں کو دھمکانے نہ کرنے کی سخت ہدایات موصول ہوئی ہیں۔ تاہم ، طاقت سے دوچار ہونے کے دوران ، اس نے دستی بموں میں سے ایک سے حفاظتی پن واپس لے لیا اور اسے اکانومی کلاس مسافروں کی طرف گلیارے سے پھینک دیا۔ معجزانہ طور پر یہ پھٹا نہیں اور اس طرح عام دباو¿ اور ہوائی جہاز کے ممکنہ حادثے کا سبب بنے۔ ارگیلو نے دو مرتبہ پرواز کے عملے کے رکن ویدر کو گولی مار دی تھی ، اور پائلٹ اوری بار لیف نے خالد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کےلئے تل ابیب واپس جانے کے احکامات سے انکار کردیا تھا۔ پائلٹ نے طیارے کو لندن کے ہیتھرو ہوائی اڈے کی طرف موڑ دیا ، جہاں دونوں اسکائیمارشلز طارق پر اسمگل کیے گئے ایک اور ایل ایل طیارے کو تل ابیب لے جانے والے ٹیک آف کے انتظار میں تھے ، ویدر کو فوری اسپتال منتقل کیا گیا اور لیلیٰ خالد کو ایلنگ پولیس اسٹیشن پہنچایا گیا۔ یکم اکتوبر کو ، برطانوی حکومت نے اسے بدلے میں رہا کردیا پہلی بار ہائی جیکنگ کے بعد اس نے اپنا بہروپ بدلنے کےلئے ا±وپر تلے چھ بار پلاسٹک سرجری کروائی اور اپنی صورت مکمل طور پر تبدیل کر لی ۔ ایک سال بعد 6 ستمبر 1970ءکولیلیٰ خالد نے اپنے ایک ساتھی کی مددسے ایمسٹرڈیم سے نیویارک جانے والی پرواز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوگئے ایک خونریز تصادم کے نتیجہ میںلیلیٰ خالد کے ساتھی کو گولی مار کر ہلاک جبکہ اسے گرفتار کرلیا گیا اور اس جہازکو برطانیہ کے ایک ایئرپرپورٹ پر اتار لیا گیا ابھی ایک مہینہ بھی نہیں گذرا تھا کہ فلسطینی جانبازوں نے ایک اور طیارہ اغوا کرکے تمام مسافروں کو یرغمال بنالیا ہائی جیکروں نے لیلیٰ خالد کی رہائی کا مطالبہ کردیا اور یوں مذاکرات کے بعدلیلیٰ خالد کو قید سے رہائی ملی۔لیلیٰ خالد نے اپنی خود نوشت سوانح عمری ” My people shall live“ میں انہوں نے اپنی کہانی لکھی ہے۔ یہ دل کو دہلادینے والی کہانی ہے۔ یہ کتاب 1973ء میں شائع ہوئی جبکہ لیلیٰ خالد کی زندگی پر 2005ءمیں Hijacker Khaled Laila نامی فلم بھی بنائی گئی اور ا سے ایمسٹرڈم کے فلمی میلے میں بڑی پذیرائی ملی۔اس کی شادی ڈاکٹر فیاض رشید ہلال سے ہوئی وہ ہنگامہ خیز مصروفیات کے بعد اپنے دو بیٹوں بیدر اور بشار کے ساتھ عمان ، اردن میں ر ہائش پذیرہوگئی،دنیا میں جب بھی جانباز حریت پسندوںکا تذکرہ ہوگالیلیٰ خالد کی جرا¿ت ،بہادری اور اپنے وطن سے محبت کے لازوال جذبے کو کوئی فراموش نہیں کرسکے گامسلمانوںمیں یہ جذبہ پیداکرنے مذہبی سکالرز،علماءکرام، اساتذہ کرام اور صحافیوں کو اپنا کردار اداکرناہوگا۔