کالم

مئی کی دہشتگردی ۔نا قابل معافی جرم!

یہ امر قابل ذکر ہے کہ 5مارچ کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت 263ویں کورکمانڈرز کانفرنس ہوئی جس میں فورم نے شہدا کی عظیم قربانیوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔اس موقع پر عسکری قیادت کا کہنا تھاکہ دہشتگردی اور عسکریت پسندی کے خلاف کوششوں کے ثمرات کو مستحکم کرتے رہیں گے ۔ علاوہ ازیں فورم نے بعض مذموم عناصرکی جانب سے مایوسی،تفرقہ ڈالنے کیلئے پھیلائی جانے والی غلط اور جعلی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا۔آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ مسلح افواج کا انتخابی عمل سے کوئی تعلق نہیں تھا، مشکلات کے باجود مسلح افواج نے الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن کی ہدایت کی روشنی میں محفوظ ماحول فراہم کیا اور دیے گئے مینڈیٹ کے مطابق مسلح افواج نے ذمہ داری کے ساتھ انتخابات میں سکیورٹی ماحول فراہم کیا۔کور کمانڈرز کانفرنس نے فیک نیوز اور مس انفارمیشن پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ چند عناصر غلط خبریں پھیلا کر عوام میں مایوسی پھِلانا چاہتے ہیں۔فورم نے مایوسی کا اظہار کیا کہ میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کے کچھ مفاد پرست عناصر نے مسلح افواج کو بغیرکسی ثبوت کے بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی ۔اس موقع پر عسکری قیادت نے واضح کیا کہ دشمن قوتوں کے اشارے پرکام کرنیوالے دہشتگردوں، سہولت کاروں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنےوالوں سے پوری طاقت سے نمٹا جائے گا۔مبصرین کے مطابق اس امر میں یقینا کوئی شبہ نہےں کہ شخصی آزادی کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی فرد کی آزادی قومی سلامتی اور ملکی سالمیت کے لئے جب خطرے کا سبب بننے لگے توذاتی آزادی یقینا پس پشت چلی جاتی ہے اور قومی سلامتی کو پہلی ترجیح حاصل ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہےے۔ مبصرین کے مطابق کسے نہےں پتہ کہ جب امریکہ میں 9/11کا سانحہ پیش آیا تھا تو وہاں کی سول سوسائٹی اور حکومت نے کیسا ردعمل دیا تھا علاوہ ازیں جب برطانیہ میں 7/7کی دہشتگردی ہوئی تو وہاں کی ریاست نے کس طورفوری طور پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ہر قسم کی شخصی آزادیاں ختم کر دی تھیں ۔ایسے میں وطن عزیز میں 9مئی کے سیاہ ترین دن کو ہونے والی دہشتگردی اور شر پسندی کو معمول کی کاروائی سمجھ کر نظر انداز کر نا کہاں کا انصاف ہے ۔توقع کی جانی چاہےے کہ اس حوالے سے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے جائیں گے تاکہ ایک جانب مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے البتہ اس معاملے میں کسی بے گناہ کو نقصان نہ پہنچے ۔مبصرین کے مطابق کپتان اور ان کے ہمدرد غالبا اس امر کو فراموش کر بیٹھے تھے کہ پاکستان میں پاک افواج کے ساتھ عوام کی بھاری اکثریت دل و جان سے محبت کرتی ہے اور مسلح افواج کے امیج پر کوئی بھی آنچ آئے تو بھلا عام پاکستانی کیسے لاتعلق رہ سکتا ہے کیوں کہ سبھی جانتے ہےں کہ اللہ کی مہربانی کے بعد پاک افواج ہی ملک وقوم کو ہر قسم کی آفت سے محفوظ رکھنے کی ضامن ہے ۔ زمانہ امن ہو یا جنگ ،زلزلہ ہو یا سیلاب،مشکل کی ہر گھڑی میں ہو قوم کے شانہ بشانہ موجود ہوتی ہے اور پھر 9مئی کو تو جو دلخراش سانحہ پیش آیا اس دوران ایک مخصوص حلقے نے جس طرح لاہور کے جناح ہاﺅس،میانوالی میں ایم ایم عالم کے تاریخی جہاز کو جلانے کی ناپاک سعی کی،جی ایچ کیو میں وحشت کا ماحول پیدا کیا ، پشاور میں ریڈیو کی تاریخی عمارت کو جلایا گیا،، یہ اپنے آپ میں بدترین دہشتگردی کی مثالیں ہےں جن کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔گویا
تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنان شہر
اتنے نہ در بناﺅ کہ دیوار گر پڑے
یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ پرائیویسی اور آزادی رائے کے نام پر بعض دانشور یہ بھول بیٹھے ہےں کہ خدا نہ کرئے کہ کسی قوم کی آزادی سلب ہو جائے تو پھر اس کا حشر وہی ہوتاہے جو مقبوضہ کشمیر کے نہتے شہریوں اور بھارت میں موجود مسلمانوں،غزہ میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا ہو رہا ہے ۔ بدقسمتی سے اس کے باوجود تا حال کچھ گروہ اپنی منفی روش پر قائم ہے گویا
خوش فہمیوں کے سلسلے اتنے دراز ہےں
ہر اینٹ سوچتی ہے کہ دیوار مجھ سے ہے
اس ضمن میں یہ امر بھی پیش نظر رہے تو بےجا نہ ہو گا کہ کپتان صاحب اور ان کے ہم رکابوںنے ملک کے اندر تقسیم در تقسیم کا ماحول پیدا کرنے میں اپنی پوری توائیاں صرف کی ہےں گویا
تقسیم بھی تقسیم نہےں لگتی کسی کو
دیوار اٹھانے کا سلیقہ ہے تیرے پاس
مگر انتہائی حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی بہت بھاری اکثریت نے پچھلے ایک سال میں اس امر کو اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کی فوج اور عوام ایک دوسرے کےساتھ لازم و ملزوم ہےں اور انشااللہ رہےں گے ۔ یہ بھی کھلا سچ کسی سے ڈھکا چھپا نہےں کہ یہ قومی سلامتی کے ادارے ہی تھے جن کے کندھوں پر سوار ہو کر موصوف نے اپنے عروج کی منزلیں طے کی تھیں جنہےں آج وہ برا بھلا کہتے نہےں تھکتے اور لوگوں میں قومی سلامتی کے اداروں کےخلاف نفرت پھیلاتے رہے اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور دیگر اداروں میں اعلانیہ فوج کےخلاف پروپیگنڈہ کرتے رہے اور کہتے رہے کہ بیٹا ارسلان اس کو بھی غداری سے جوڑ دو لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ بھول گئے کہ
دریا کے تجاوز کا برا ماننے والے
دریا کا ہی چھوڑا ہوا رقبہ ہے تیرے پاس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri