اداریہ کالم

ماحولیاتی تبدیلی کے لئے عالمی فنڈکاقیام

idaria

دنیابھرمیں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے عالمی فنڈز قائم کرنے کی تجویز پاکستان کی جانب سے آئی تھی جس پرالحمداللہ عمل کرتے ہوئے عالمی فنڈقائم کردیاگیاہے جس میں متحدہ عرب امارات، جرمنی ،امریکہ ،جاپان اوربرطانیہ نے فنڈ ز دینے کااعلان کیا ہے۔ یہ کانفرنس ایک سال قبل حکومت پاکستان کی مشاورت سے ہالینڈمیں منعقد ہوئی تھی اوراس میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ ترقی پذیرممالک نے تیزی سے ہونیوالی ماحولیاتی تبدیلیوں پرقابوپانے کے لئے ان کی فنڈنگ کرناضروری ہے ۔چنانچہ گزشتہ روزعالمی ماحولیاتی کانفرنس کوپ 28 کا دبئی ایکسپو میں آغاز ہوگیا،کانفرنس کے پہلے روز غزہ کے شہدا کیلئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔کانفرنس میں برطانیہ کے شاہ چارلس، امریکی نائب صدر کاملا ہیرس اور نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں پاکستانی وفد سمیت دنیا کے 192 ممالک شریک ہیں ۔ماحولیاتی کانفرنس کی سربراہی مصر نے میزبان متحدہ عرب امارات کے حوالے کی۔کانفرنس میں پہلے ہی دن بڑی پیش رفت بھی سامنے آئی کہ اقوامِ عالم نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے فنڈ کی باضابطہ منظوری دے دی۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق امیر ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے شکار ترقی پذیر اور غریب ممالک کی مالی مدد کریں گے ۔ عالمی ماحولیاتی کانفرنس کوپ 28 میں متحدہ عرب امارات نے 10کروڑ ڈالر، جرمنی نے 20 کروڑ ڈالر، برطانیہ نے 6 کروڑ پاو¿نڈ، امریکا نے ایک کروڑ 75 لاکھ ڈالر اور جاپان نے ایک کروڑ ڈالر فنڈ دینے کا اعلان کیا۔کوپ 28 کے صدر جابر السلطان نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ کوپ 28 نے تیل وگیس کمپنیوں کو شریک کر کے دلیری دکھائی، فوسل فیول پیدا کرنےوالی کمپنیوں سے ڈائیلاگ ضروری ہے، اس کے بغیر صحت مند ماحول کے اہداف حاصل کرنا نا ممکن ہے۔ ہمارے اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ہمیں مل جل کر مشترکہ لائحہ عمل بنانا ہے، تیل پیدا کرنےوالی کمپنیاں ہی نقصان دہ گیسز کے اخراج کو کم کرسکتی ہیں۔ دنیا مل کر ہی 2050 تک نیٹ زیرو کاربن اہداف حاصل کر سکتی ہے۔واضح رہے کہ 30نومبر سے شروع ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس 12 دسمبر تک جاری رہے گی۔ان تقریبات میں متعلقہ سرکاری محکمے، تحقیقی ادارے، صنعتی انجمنیں، کاروباری ادارے اور این جی اوز شامل ہیں، جن میں چین کی موسمیاتی ردعمل کی پالیسیوں اوراقدامات، عالمی موسمیاتی تعاون، ماحول دوست اور کم کاربن ترقی، انرجی ٹرانسفارمیشن ، ڈیجیٹل ترقی اور گرین فنانس کے موضوعات شامل ہوں گے۔ نگران وزیراعظم یکم اور 2 دسمبر کو ورلڈ کلائمیٹ ایکشن سمٹ میں شرکت کرینگے۔نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ ورلڈ کلائمیٹ ایکشن سمٹ میں 2 دسمبر کو نیشنل سٹیٹمنٹ دیں گے، کانفرنس کی سائیڈ لائنز پر انوارالحق کاکڑ کی مختلف عالمی رہنماں سے ملاقاتیں بھی متوقع ہیں۔دوسری جانب غیرملکی میڈیا کو انٹرویو میںنگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کو فوری طور پر فعال بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق امیر اور ترقی یافتہ ممالک کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے، ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل سے نمٹنے کےلئے فنڈز کا استعمال میرٹ پر ہونا چاہئے مسئلے کیلئے ترقی یافتہ ملکوں پر بھاری ذمہ داری عائد ، پاکستان کیلئے ماحولیاتی تبدیلیوں کے سنجیدہ مسائل ،کوئلے سے چلنے والے منصوبے متبادل توانائی پر منتقل کر رہے ہیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا ذمہ دار نہیں ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے سندھ اور بلوچستان متاثر ہوئے۔ہم سب کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کو ترقیاتی فنڈز اور بڑے مالیاتی اداروں کے قرضوں سے الگ ہونا چاہئے اور یہ سرمایہ میرٹ پر اور اضافی ہونا چاہئے اور یہ شراکت داری حقیقی معنوں میں ہونی چاہئے۔ سب جانتے ہیں کہ گذشتہ صدی کے دوران ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا ذمہ دار کون ہے، ممالک اور معیشتوں پر فیصلہ تھوپنے کی بجائے ایماندار مباحثہ اہم ہے، امیر ممالک کو خود ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک پر زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے تاہم بڑے عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے اس کو فعال بنایا جا سکتا ہے، کوئلہ پر چلنے والے منصوبوں کو قابل تجدید توانائی کے منصوبوں میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی وضع کی ہے، ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایسے مخصوص منصوبوں پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، خلیجی ممالک متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، کویت سمیت مغربی ممالک اس میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔
آئی ایم ایف شرائط،چاراداروں کی نجکاری کاعمل
آئی ایم ایف کی جانب سے آنے والی شرائط پرعملدرآمد کے لئے تیزی سے کام جاری ہے ۔ اس میں ایک اہم شرط یہ تھی کہ خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کیاجائے تاکہ حکومت پرمالیاتی دباﺅ کم سے کم کیاجاسکے۔ چنانچہ حکومت نے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری کردی، ایوان صدر سے چار سرکاری اداروں کو حکومتی سرپرستی سے آزاد کرنے کے آرڈی ننس جاری کردیے گئے ۔ صدر مملکت نے چاروں اداروں ریڈیو پاکستان، این ایچ اے، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن اور پوسٹل سروسز سے متعلق آرڈیننسز کی منظوری دے دی، غیر منافع بخش اور مالی خسارے کا سبب بننے والے یہ چار سرکاری ادارے خود مختار بورڈز کے ماتحت کام کریں گے ان پر سے حکومتی سرپرستی ختم کردی گئی ۔ اس حوالے سے ایوان صدر نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی (ترمیمی)آرڈیننس 2023، پاکستان پوسٹل سروسز مینجمنٹ بورڈ(ترمیمی)آرڈیننس 2023، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن (ترمیمی)آرڈیننس 2023 اور پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن(ترمیمی)آرڈیننس 2023 جاری کیے ہیں ۔ متعلقہ وزارتوں کے سیکرٹریز نے ان آرڈیننسز کی فوری ضرورت پر صدر مملکت کو بریفنگ دی جیسا کہ ان چار ریاستی ملکیت انٹرپرائزز(ایس او ای)کے حوالے سے رواں سال جولائی میں آئی ایم ایف کے ساتھ اتفاق رائے ہوا تھا ۔ان اداروں کے قوانین میں ترامیم جن پر صدر مملکت نے دستخط کئے ہیں، انہیں جنوری 2023میں نافذ کر دہ ریاستی ملکیتی اداروں (گورننس اینڈ آپریشن)ایکٹ 2023 کے مطابق لانے کےلئے کی گئی ہیں ۔ خدمات کی فراہمی کے معیار کو بڑھانے اور مالیاتی نظم و ضبط لاکر ایس او ایز کی گورننس اور آپریشنز کو بہتر بنانا ہے ۔ حکومت اب ایس او ای قانون کی دفعات کو ایسے اداروں تک توسیع دینے کے عمل میں ہے جو خصوصی قوانین کے تحت چلتی ہیں اس سے ان کے آپریشنز موثر اور شفاف ہوں گے ۔ یہ ترامیم ریاستی ملکیتی اداروںاصلاحات کا حصہ ہیں جن پر حکومت پاکستان نے بین الاقوامی شراکت داراروں کے ساتھ اتفاق کیا ہے اور آئی ایم ایف اور ایس بی اے میں ایک بنچ مارک کے طور پر شامل ہیں ۔نئی ترامیم کے ذریعے بورڈ کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو کے دفاتر کو مذکورہ بالا تمام اداروں میں الگ کر دیا جائیگا تاکہ بین الاقوامی بہترین طریقوں کے مطابق بہترین گورننس کو یقینی بنایا جا سکے۔
شہید کی صاحبزادی کی فریاد پرسپہ سالارکاردعمل
شہداءکے قومی دن کے حوالے سے راولپنڈی میں منعقد ہونے والی تقریب میں بلوچستان سے آنے والے ایک شہید سپاہی کی بیٹی نے پاک فوج کے سپہ سالار کو بتایا کہ ان کے گاﺅں کا وڈیرا سیلا ب سے آنے والے پانی کو ان کے گھروں کی طرف چھو ڑ دیتاہے جس سے پوراگاﺅں تباہی سے دوچار ہوجاتاہے ۔اس پرپا ک فوج کے سپہ سالارنے اپنے ایک افسر کو ہدایت کی کہ یہ ڈیرہ شہداءکے خاندانوں کو تنگ کررہاہے اس تک یہ پیغام پہنچادیں کہ وہ آئندہ ایسی حرکت نہ کرے ورنہ اس کے پانی کارخ کسی اورطرف موڑ دیاجائے گا۔ سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو بے حد وائرل ہوئی اور پاکستانی عوام کی اکثریت نے سپہ سالار کے اس بیان کو خوب سراہا۔ یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ پاک فوج کاسپہ سالار باوردی شہداءکے سرپرست ہیں اور یونیفارم پہننے والے تمام محکمہ جات کے کارکنان انہیں اپنارہبر اورلیڈر تصور کرتے ہیں۔ ایک یتیم بچی کے منہ سے نکلنے والی فریاد پر سپہ سالار کے ری ایکشن نے محمدبن قاسم کی یادتازہ کرادی کہ جو اپنی ایک مظلوم بہن کی صدا پرسرزمین عرب سے دیبل (سندھ)آپہنچاتھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے