کالم

مارے نالوں ڈرایا چنگا

latif khokhar

آج کے کالم کا عنوان پنجابی زبان میں ہی فٹ بیٹھ رہا تھا جسکا مطلب کچھ یوں بنتا ہے کہ ضروری نہیں جو بات سمجھانی مقصود ہے وہ ضرب لگا کر یا مار کے ہی سمجھائی جائے۔ ڈراوے سے ہی اگر کام چل جائے تو اسی پر اکتفا بہتر نتائج دیتا ہے۔ اس سے بہتر بھی اسکے مطالب نکالے جا سکتے ہیں لیکن کل ملا کر تقریباً مطلب یہی بنتا ہے کہ مارے نالوں ڈرایا چنگا۔ اب آتے ہیں اسکے استعمال پر کہ ہم کہنا کیا چاہتے ہیں۔3 نومبر کو عمران خان کے آزادی مارچ پر حملہ ہوتا ہے، ایک شہادت اور خان سمیت درجن بھر لوگ زخمی ہوتے ہیں،کسی کو گرنے سے چوٹیں آتی ہیں تو کوئی گولیوں کی زد میں آتا ہے، صاف نظر آ رہا تھا کہ خون زخمیوں کے جسموں کے مختلف حصوں سے بہہ رہا تھا، یہ خون تھا جو بہایا گیا اور خون کا ایک ایک قطرہ قیمتی ہوتا ہے اور یہ کبھی فرمائشی نہیں بہایا جاتا اور نہ ہی خون ناحق کبھی رائیگاں جاتا ہے، لیکن خان کے مخالفین نے اس انسانی خون کا بھی خوب مذاق اڑایا، ڈرامے بازی سے تشبیہ دی گئی ، کسی مذہبی جنونی کا ذاتی فعل قرار دے کر جان چھڑانے کی کوشش کی گئی۔ گولی ٹانگوں پر کیوں لگی، سرکاری ہسپتال سے کیوں چیک اپ نہ ہوا، غرض جو بھی گھٹیا قسم کی اپوزیشن ہو سکتی تھی اس جان لیوا حملے کی مخالفت میں انتہائی ڈھٹائی سے کی گئی اوروہ بھی ٹیپیکل رانڑاں لائلپوری انداز میں۔ اب اس واقعے کی ایف آئی آر کا مرحلہ آیا، پی ٹی آئی روز اول سے اسے وزیراعظم ، وزیر داخلہ اور حساس ادارے کے ایک سینئر افسر کے خلاف رپورٹ لکھوانا چاہتی تھی جسے لکھنے سے صاف انکار کر دیا گیا حالانکہ قانون کی منشا بڑی واضح ہے کہ شکایت کنندہ کے منہ سے لکھے ایک ایک لفظ کو حرف بہ حرف ضبط تحریر میں لانا ایس ایچ او پر لازم ہے جو اسے ضابط فوجداری کی دفعہ 154 پابند کرتی ہے، اور اگر ایف آئی آر درج ہو بھی جائے تو اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ الزام علیہ پر جرم ثابت ہو گیا، اسی ضابطے کی اگلی دفعات میں جو پروسیجر دیا گیا ہے اگر وہ مکمل طور پر اختیار کیا جائے تو پوری چھان پھٹک کے بعد بعض اوقات کام الٹا بھی ہو سکتا ہے اسی لئے جھوٹے الزام پر شکایت کنندہ پر کارروائی کا طریقہ کار بھی 172 ض ف کی کارروائی کی شکل میں موجود ہے۔ لہٰذا کسی بھی فریق کو قانون سے اپنے آپ کو مبرا نہیں منوانا چاہئے اور سب کو قانون کے آگے سر خم کرنا چاہئے تھا۔ لیکن دونوں جانب سے رسہ کھینچ کر زور لگانے میں لگے دونوں فریقوں نے اسے اپنی ضد قرار دے دیا اور اسی کشمکش میں بات اب سپریم کورٹ تک پہنچ چکی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایف آئی آرپی ٹی آئی کے الزامات کے عین مطابق اگر درج نہیں ہوتی تو اس کے پاس اب دیگر آپشنز کیا موجود ہیں؟ ۔ اسکا جواب اول تو یہ ہے کہ جو پی ٹی آئی چاہتی تھی وہ ایف آئی آر تو اب گلی گلی محلے محلے لکھی جا چکی ہے،لوگوں نے اسکا ٹرائل بھی مکمل کر لیا ہے اور اس پر فیصلہ بھی عوام کا آ چکا ہے۔ تمام پس پردہ اور سارے حاضر و غائب سب کا پتہ لگ چکا ہے۔ جو ہونا تھا وہ بھی ہو چکا اور جو نہیں ہونا تھا وہ تماشہ بھی سر عام لگ چکا۔اسلئے عوامی عدالت میں دیکھا جائے تو تحریک انصاف اپنا یہ والا مقدمہ تو پہلے ہی راو¿نڈ میں جیت چکی ہے۔ اور نمبر دوئم اگر بھائی پھر بھی صبر نہیں آ رہا تو آپ اپنی لیگل ٹیم کو مشورہ دے کر اکھاڑے میں اتاریں اور جملہ حالات و واقعات کو ایک تگڑے پرائیویٹ کمپلینٹ کی صورت میں مقامی عدالتوں میں دائر کر کے ابتدائی حقائق پیش کریں اور اپنے تمام ملزمان کو طلب کروائیں تو ٹرائل کو پھر کوئی کسی صورت نہیں روک سکتا اور میرا سب سے مخلصانہ مشورہ پھر بھی یہی ہو گا کہ آپ نے جو پانا تھا وہ پا لیا، اب اگر ایف آئی آر درج ہو بھی جائے یا پرائیویٹ استغاثہ دونوں صورتوں میں یاد رکھیں طاقتور ملزمان ہمیشہ عدالت بھی اپنی مرضی کی لگواتے ہیں اور فیصلہ بھی اپنی من مرضی کا، لہٰذا، میں پھر بھی یہی کہوں گا اور میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ ”مارے نالوں ڈرایا چنگا“۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے