کالم

ماہ اگست میں ایٹم بم کی تباہ کاریاں

اگست کا مہینہ جاپان میں ایٹمی بمباری میں مرنیوالوں کو یاد کرنے کا مہینہ ہے لیکن امریکی صدر ٹرومین سے لیکر آج تک امریکی صدور کی یہ خواہش اور کوشش رہی کہ جاپان پر ایٹم بم گرانیوالے دونوں دن چھ اگست اور نو اگست خاموشی سے سے گزر جایا کریں ۔ جاپان پر ایٹم بم گرانے سے قبل اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جاپان کو وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر جاپان کی حکومت نے ہمارے الٹی میٹم پر غور نہ کیا تو ان پر بموں کی ایسی آگ برسائی جائے گی جو اس سے قبل کسی نے بھی اس کرہ ارض پر نہیں دیکھی ہو گی ۔ہیری ٹرومین نے اپنے اس دعوے کو سچ ثابت کر دکھایا اور پھر جاپان پر برسائی گئی آگ سے اٹھنے والے دھویں کے بادل چالیس ہزار فٹ کی بلندی تک پھیل گئے ۔جنگ عظیم دوم کے آخری دنوں سن 1945ء میں اسی اگست کی چھ تاریخ تھی ،جب ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا گیا ۔ستر ہزار لوگ چند سیکنڈ میں اور ایک لاکھ چالیس ہزار انسان چند دنوں میں اس ایٹم بم سے ہلاک ہو گئے ۔تین لاکھ کی آبادی والے اس شہر میں ایٹمی تابکاری کے اثرات سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکا ۔کئی دہائیوں بعد بھی پیدا ہونے والے کئی بچے اسی وجہ سے معذور پیدا ہوتے رہے ۔سارا شہر جل کر زمین بوس ہو گیا ۔تین دن کے وقفے کے بعد امریکی صدر ہیری ٹرومین کے حکم پر صنعتی شہر ناگا ساکی میں دوسرا ایٹم بم پھینکا گیا ۔چشم زدن میں ایک لاکھ شہری جان کی بازی ہار گئے ۔دونوں شہروں میں مرنے والوں کا اندازہ تو شاید کبھی بھی نہ لگایا جا سکے مگر بلا مبالغہ یہ تعداد لاکھوں میں تھی ۔ان شہروں کو نشانہ بنانے ،جسے اس وقت اسٹیبلشمنٹ نے ”سوپروپین”کا نام دیا تھا ، ایک سبب یہ بھی تھا کہ یہ دو شہر ایسے تھے جن میں کوئی بھی امریکی فوجی جنگی قیدی نہیں تھا ۔ چھ اگست کو ہیرو شیما پر گرائے گئے ایٹم بم کا نام ”لٹل بوائے”رکھا گیا تھا جس نے مشروم کی شکل کا ایٹمی بادل پیدا کر کے دنیا میں ایٹمی اسلحے کے حصول کی دوڑ کا اعلان کر دیا ۔ناگا ساکی پر نو اگست کو پھینکے گئے ایٹم بم کو ”فیٹ مین ” یعنی موٹے آدمی کا نام دیا گیا تھا ۔ان ناموں سے امریکیوں کی حس مزاح اور بزلہ سنجی کے علاوہ بے حسی کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔پندرہ اگست 1945ء کو جاپانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے ،عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ اگر ایٹم بم کا ستعمال نہ بھی کرتا تب بھی جاپان ہتھیار ڈال دیتا ،چونکہ یورپ میں اس کا اتحادی جرمنی مئی کے مہینے میں شکست کھا چکا تھا اور وہاں جنگ اپنے اختتام کو پہنچ چکی تھی ۔ امریکی صدر ٹرومین پر تنقید کی جاتی ہے کہ گنجان آباد شہروں پر ایٹم بم گرانا اس کی غلطی تھی ۔ جاپان جزائر پر مشتمل ہے ۔اس کی ناکہ بندی ہو سکتی تھی ۔اگر ایٹمی ہتھیار کا استعمال ناگزیر تھا تو پھر کسی ویران یا کم آبادی والے علاقے میں استعمال کر لیتے ۔تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکی ایٹمی بمباری کا ایک مقصد سوویت یونین کو متنبہ کرنا بھی تھا کہ امریکہ عسکری طور پر کتنا آگے جا چکا ہے ۔اسٹالن کی حوصلہ شکنی بھی مقصود تھی مگر دو ارب ڈالر خرچ کر کے بنائے گئے ان ایٹمی ہتھیاروں کی بمباری سے سوویت یونین اور جوزف اسٹالن کا حوصلہ تو نہ ٹوٹ سکا البتہ کرہ ارض پر ریاستوں کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی ایک نہ ختم ہونے والی خطرناک دوڑ ضرور شروع ہو گئی ۔دوسری جنگ عظیم میں ایٹمی بمباری کے نتیجے میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے لوگوں نے جس آفت کا سامنا کیا ،اس کیلئے المیے کا لفظ بہت چھوٹا لگتا ہے ۔چشم زدن میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے ۔آگ کے شعلوں اور تابکار شعائوں سے زندہ بچ جانے والوں میں لاکھوں انسان ہمیشہ کیلئے معذور ہو گئے ۔ایٹم بم کے نتیجے میں آنیوالی ہولناک تباہی ایک دن کی بپتا نہیں تھی ،برسو ں بعد پیدا ہونے والے کئی بچے ایٹمی تابکاری کے اثرات کی وجہ سے معذور پیدا ہوتے رہے ۔اس مرگ انبوہ کا مشاہدہ کرنے والے بہت سارے لوگوں نے وحشت کی وجہ سے دہائیوں تک ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا ،پیہم خاموش رہے ۔خوف ،دہشت اور کرب کے اثرات زندہ بچ جانیوالے لوگوں میں تمام زندگی دیکھے اور محسوس کئے گئے ۔ایٹم بم گرائے جانے سے پہلے ہیروشیما سرسبز و شاداب ،دریائوں کی سرزمین اور وہاں چہل پہل دیکھنے کے لائق تھی ۔چند لمحوں میں ہنستا بستا شہر راکھ کا ڈھیر بن جاتا ہے اور پھر انسانیت کے اس اذیت ناک عمل کے اثرات سے نسلیں کیسے متاثر ہوئیں جنہیں سن کر دل لرز جاتا ہے ۔ہیرو شیما میں ایٹمی تباہی اور اس کے اثرات پر لکھی جانے والی کتب میں سے ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ایٹمی حملے کے بعد زندہ بچ جانے والی ایک خاتون نے بتایا کہ ایٹمی حملے کی چندھیا دینے والی چمک سے آنکھوں کو بچانے کیلئے میں نے ہاتھ اٹھائے تو اس کے چہرے اور ہاتھ کا گوشت لٹک گیا ۔ہر طرف لوگ مدد کیلئے پکار رہے تھے ،انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے ،اس کے جسم کے اعضاء الگ کیوں ہو رہے ہیں ،گوشت کیوں پگل رہا ہے ۔لوگوں کی آنکھیں ان کے چہروں سے باہر لٹک رہی تھیں اور ان کے حلقے خالی تھے ۔ تابکاری کے اثرات سے ان کے بال گر رہے تھے اور جسم پر دھبے نمودار ہو رہے تھے ۔زندگی کی اذیت سے گزرنے والے موت کی دعا کر رہے تھے ۔ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر امریکہ کی ایٹمی یلغار کے بعد زندگی سمٹ کر رہ گئی ۔ایسے لمحات میں جاپان کا شاعر” اٹوا” چیخ اٹھا تھا ۔وہ کہتا ہے ”اب زندگی کے آثار ہمیشہ کیلئے مٹ گئے ،اس نیلے آسمان سے کبھی بھی بارش کے قطرے نہیں اتریں گے ۔آبادیوں میں خوف کے عفریت اتر آئے ہیں اور بچوں نے مائوں کی گودوں سے نکلنا چھوڑ دیا ہے ۔ذی روح بستیاں چھوڑ کر بھاگ گئے ۔اب یہاں کوئی نہیں آئے گا ۔لوگ دہلیز کے اس پار اپنے پیاروں کا مدتوں انتظار کریں گے ۔” جاپانیوں نے ایٹمی بمباری کے نتیجے میں ہنستے بستے شہروں کو جل کر راکھ ہوتے دیکھا ۔ایسی تباہی کہ جس کی نظیر انسانی تاریخ میں اس سے پہلے دنیا میں کہیں نہیں ملتی ،نہ ہی اس کے بعد کسی انسانی بستی نے ایسی بربادی کا سامنا کیا ۔دوسری جنگ عظیم میں کس حکمران کا کتنا قصور تھا ؟اور کون سی ریاست کتنی قصوروار تھی ؟اس کا فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہے ،شاید ناممکن ہی ہو گا کیونکہ جنگ میں تو پہلی موت ہی سچائی کی ہوتی ہے ۔اس وقت کا جاپان مشرق بعید میں جارحیت کا مرتکب تھا ،نو آبادیاں قائم کر رہا تھا ،دیگر بھی ایسے بہت سے امور میں ملوث تھا جن کی توجیع پیش نہیں کی جا سکتی ۔امریکہ کی جانب سے مگر لاکھوں معصوم لوگوں کو ایٹمی شعلوں میں جلا کر بھسم کر دینا ایک ایسا عمل ہے جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی ۔مورخ اسے ظلم کے علاوہ کسی دوسرے نام سے یاد نہیں کرے گا ۔راقم کی دعا ہے کہ مستقبل میں دنیا کی کسی بستی کے لوگوں کو کبھی ایسا سانحہ نہ دیکھنا پڑے جیسا گزشتہ صدی میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے لوگوں نے دیکھا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے