کالم

مایوسی کی وجہ سے 8 لاکھ جوان ملک چھوڑ چکے

گزشتہ دنوں میں پاکستان کی معروف گائیک طاہرہ سید کا انٹرویو سُن رہا تھا ۔ اُن سے پوچھا گیا کہ آپ کی دوبچیاں جو بیرون ملک ہیں ۔ اُن کی وجہ سے آپ پریشان ہونگی ۔ تو محترمہ طاہرہ سید نے جواب دیا ©©،نہیں مجھے اُنکے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے کوئی پریشانی نہیں ۔ اگر وہ خوش ہیں تو میں خوش ۔ اُنہوں نے کہا کہ کم ازکم اُس بجلی ، گیس لوڈ شیڈنگ ، لاقانونیت اور دوسرے کئی مسائل کا سا منا تو کرنا پڑے گا۔پاکستان کی کل آبادی تقریباً 23 کروڑ ہے جس میں 65 فیصد کے حساب سے نوجوانوں کی تعداد 15 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔اگر ہم غور کریں تو جوان کسی ملک اور معا شرے کا آثاثہ ہے ۔ مگر یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے نوجوان ،وطن عزیز میں نااہل حکمرانوں،سول اور ملٹری لیڈر شپ کی ناقص اور غلط پالیسیوں ، بے روز گاری ، بے تو قیری، معاشرے میں اُس کے سٹیٹس کے حساب سے مقام نہ ملنے ،وراثتی اور نسل در نسل سیاست دانوں کی سیاست ، کرپشن ، اقربا پروری کی وجہ سے انتہائی پریشان ہیں۔ والدین بچے بچیوں پرلاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرکے مہنگے یونیور سٹیوں اور کالجوں میں ایم اے، ایم ایس سی، انجینیر نگ، میڈیکل ڈگری دلواتے ہیں مگرافسوس صد افسوس ملک کا یہی قیمتی آثاثہ جو جس کسی ریاست کی ترقی کا انجن ہوتا ہے وطن عزیزمیں نااہل قیادت اور فضول پالیسیوں کی وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سال 2022 میں تقریباً 7 لاکھ 65 ہزار نوجوان مملکت خداداد پاکستان میںروزگار،مہنگائی ، مستقبل ، عزت نفس نہ ہونے اور ملک میں غیر یقینی اقتصادی اور سیاسی صورت حال کی وجہ سے ملک چھوڑ چکے ۔ 2022 میں 2021 کے مقابلے میں تین چند زیادہ نوجوان مایوسی اور محرومی کی وجہ سے ملک سے کوچ کر گئے۔ 2020 میں ملک چھوڑنے والے نوجوانوں کی تعداد 2 لاکھ 25ہزار جبکہ 2022 میں ملک میں غیر یقینی سیاسی اور اقتصادی صورت حال کی وجہ سے 7 لاکھ 65 ہزار نوجوان ملک چھوڑ چکے ہیں۔ان میں 6 ہزار انجینیر،18 ڈپلومہ انجینیرز، 3000 ڈاکٹر اور 2000 سے زیادہ کمپیوٹر سپیشلسٹ بھی شامل ہیں ۔ اگر ہم ترقی یافتہ اقوام کا تجزیہ کریں جس میں بر طانیہ، ، جاپان، امریکہ، چین، سنگاپور اور دیگر کئی ممالک شامل ہیں یہ ممالک نوجوانوں کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ کیونکہ وہاں سخت خاندانی منصوبہ بندی اور بچوں کی پیدائش پر پابندی کی وجہ سے شرح پیدائش کئی ممالک میں صفر اور کئی ممالک میں منفی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان ترقی یافتہ ممالک کو اپنی معاملات کو چلانے کے لئے نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ حکومت کو اپنی ضروریات سے زیاد ہ نوجوان ایک موثر حکمت عملی اور منصوبہ بندی کی تحت بیرون ملک بھیجنا چاہئے تھا۔ مگر یہ جوان مایوسی اور بغیر کسی پلاننگ کے حالات سے تنگ آکر ملک چھوڑ رہے ہیں جس سے ان نوجوانوں ، انکے والدین اور وطن کا بُہت نقصان ہو رہا ہے ۔ ہمارے ملک سے جو نوجوان بیرون ملک جانے کا رسک لیتے ہیں وہ اپنے آپکو مشکل میں ڈالتے ہیں جس سے اُسکو نقصان بھی ہو سکتا ہے۔پاسپورٹ امیگریشن کے مطابق پاکستان میں روزانہ کے حساب سے 30 ہزار ریکارڈ پاسپورٹ بن رہے ہیں جس میں اکثریت جوان ہیں۔ پاسپورٹوں کی تیاری کا یہ سلسلہ گذشتہ 6 مہینوں سے اسے زیادہ عرصے سے زیادہ زور و شور سے جاری ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق ان میں اکثریت جوان بے روزگاری، ملک میں معاشی اور سیاسی بد حالی کی وجہ سے چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق بلو چستان کے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ اُنکو ملک میں عزت نہیں ملتی۔ لہذاءعزت مند اور با وقارزندگی کے لئے وہ وطن عزیز سے بیرون ملک جاتے ہیں۔ سندھ کے نوجوانوں کا خیال ہے کہ ایک تو سیاسی اور معاشی بدحالی کی وجہ سے اورتحفظ نہ ہونے کی وجہ سے ملک چھوڑ جاتے ہیں۔ سروے کے مطابق خیبر پختون خوا کے نو جوانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں قسمت پر سب کچھ نہیں چھوڑنا چاہئے ۔ پنجاب کے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ معاشی مالی لحا ظ سے خوش نہیں اس لئے بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ حکمران نوجوانوں کو اپنے میں روز گار فراہم کرتے ۔صنعتی زون بناتے انکو قرضے دئے جاتے اور اس طرح نوجوان ملک کی ترقی میں اہم کر دار ادا کرتے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ 15 کروڑ نوجوانوں کے لئے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں جوانوں کے لئے کچھ کرنا چاہئے کیونکہ اگر اس سے کام لینا چاہئے۔اور اس آثاثے کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے