پرتشدد انتہا پسندی جہاں معاشرے میں عدم برداشت۔احترام انسانیت کا گلہ گھونٹتی ہے وہاں ریاست کی رٹ کو بھی چیلنج کرتی ہے ۔ پاکستان اس وقت نہ تو پرتشدد انتہا پسندی کا متحمل ہوسکتا ہے اور نہ ہی اخلاقی طور پر بھی اس کی اجازت دی جاسکتی ہے۔پرتشدد انتہا پسندی کے ذریعہ سے ہی بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔شیوسینا جیسی پرتشدد تنظیمیں وہاں پر ظلم و بربریت کررہی ہیں۔کسی بھی مہذب معاشرے میں پرتشدد انتہا پسندی کا نام و نشان نہیں ہوتا اور خصوصاً وطن عزیز خطہ فردوس بریں۔نور کا مسکن امن کا آشیاں اس کا ہرگز ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا۔گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد شہباز شریف نے پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کی قومی پالیسی برائے 2024ءکی منظوری دیدی۔وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں وفاقی کابینہ نے وزارت تجارت کی سفارش پر مونو سوڈیم گلوٹامیٹ (اجینو موتو) کی درآمد پر پابندی اٹھانے کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے پر نظر ثانی درخواست دائر کرنے کی بھی منظوری دے دی۔یہ فیصلہ ماہرین کی اس خصوصی کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں کیا گیا ہے جو کہ وزیراعظم آفس کی ہدایت پر مونو سوڈیم گلوٹامیٹ کی انسانی صحت پر اثرات کو جانچنے کے حوالے سے بنائی گئی تھی۔اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں مونو سوڈیم گلوٹامیٹ کو انسانی صحت کے لئے محفوظ قرار دیا ہے۔۔وفاقی کابینہ نے وزارت وفاقی تعلیم و فنی تربیت کی سفارش پر یونیورسٹی آف کیمبرج،سینٹ انٹونیز کالج یونیورسٹی آف آکسفورڈ، یونیورسٹی آف جارڈن، پیکنگ یونیورسٹی چین، یونیورسٹی آف ہائیڈل برگ جرمنی میں پاکستان چیئرز کے حوالے سے مفاہمتی یادداشتوں کی تجدید کی بھی منظوری دی۔وفاقی کابینہ نے وزارت وفاقی تعلیم و فنی تربیت کی سفارش پر سینٹر آف ایکسیلنس یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے بورڈ آف گورنرز میں ڈاکٹر حبیب الرحمٰن اور ڈاکٹر کامران انصاری کی بطور سبجیکٹ ایکسپرٹس نامزدگی کی منظوری دیدی۔وفاقی کابینہ نے وزارت وفاقی تعلیم و فنی تربیت کی سفارش پر سینٹر آف ایکسیلنس ان منرالوجی، یونیورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ کے بورڈ آف گورنرز میں ڈاکٹر ممتاز محمد شاہ اور ڈاکٹر محمد احمد فاروقی کی بطور سبجیکٹ ایکسپرٹس نامزدگی کی منظوری دے دی۔وفاقی کابینہ نے وزارت داخلہ کی سفارش پر اسلام آباد سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے حوالے سے تجویز کی بھی اصولی منظوری دے دی۔۔وزیر اعظم نے کابینہ اجلاس میں شرکت پر ارکان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے میں آپ کو ایک اچھی خبر دے رہا ہوں کہ 70 ماہ بعد افراط زر اس نومبر میں اپنی کم ترین سطح پر ہے، 2018ءمیں محمد نواز شریف کے دور میں افراط زر 3.5 فیصد تھی،اب اس مہینے میں یہ 4.9 فیصد تک پہنچی ہے یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے،اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کیونکہ افراط زر واحد وہ ہتھیار ہے جو غریب آدمی کی غربت میں مزید اضافہ کرتا ہے یا آسودگی لے کر آتا ہے۔ یہ 70 ماہ بعد ایک ریکارڈ کمی آئی ہے، ملک کے اندر عام آدمی، غریب آدمی کا بوجھ مزید کم ہو گا۔وزیر اعظم نے کہا کہ امید کی جانی چاہئے کہ افراط زر میں کمی سے اب سٹیٹ بینک کے آئندہ اجلاس میں پالیسی ریٹ مزید کم ہوگا،تاہم فیصلہ سٹیٹ بینک نے کرنا ہے۔میں یہ چاہتا تھا کہ پچھلے دنوں جو دھرنوں نے ملک میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر دی تھی اور ملک کے اندر خاص طور پر اسلام آباد میں ہر طرف افراتفری اور ہیجان کا ماحول تھا،توڑ پھوڑ کی گئی اور پولیس اور رینجرز کے اہلکار شہید ہوئے، درجنوں زخمی ہوئےاور اپنے ان انتہائی غلط اور غیر قانونی ہتھکنڈوں سے ملک کی عالمی سطح پر بے عزتی کرائی گئی۔ ایک دن کے اندر سٹاک ایکسچینج ساڑھے تین ہزار پوائنٹس نیچے آ گئی لیکن ڈی چوک سے پیچھے ہٹتے ساتھ ہی اگلے دن سٹاک ایکسچینج میں دوبارہ فوری بہتری آئی ۔ افراط زر میں کمی ٹیم ورک کا نتیجہ ہے،ہم نے مزید عرق ریزی اور محنت سے کام کرنا ہے ، اسکے ثمرات آنے والےدنوں میں مثبت ہونگے ۔ ایف بی آر محصولات کا ہدف حاصل کرے گا تو بہتری آئے گی۔ ہم نے چینی کی برآمد کی اجازت دی تو اس سے 500 ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوا اور ملکی سطح پر چینی کی قیمتیں بھی کم ہوئیں ۔ پاک فوج کے اقدامات سے افغانستان کو چینی کی سمگلنگ کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔آج ملک میں چینی کا وافر سٹاک موجود ہے۔اسی طرح ایف بی آر کو بھی اقدامات اٹھانے ہونگے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف اور ان کی ٹیم کی کاوشوں سے یورپ کےلئے پی آئی کی پروازیں بھی بحال ہوگئی ہیں ،ان پروازوں کی بندش سے قوم کا اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ۔ ایک منچلے وزیر کے پی آئی اے میں پائلٹس کی جعلی ڈگریوں کے بیان سے یہ نقصان اٹھانا پڑا تھا۔پی آئی اے کی نجکاری نہ ہونے کی ایک وجہ ان روٹس کی بندش بھی تھی۔اس پر سابق وزیر ہوابازی خواجہ سعد رفیق اور ان کی ٹیم کو بھی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔پوری قوم اور سیاسی قیادت کو بھی اس پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔یہ بڑی کامیابی ہے ۔معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ اب گروتھ بھی حاصل کرنی ہے ، اقتصادی اہداف حاصل کرینگے ۔ ایک طرف حکومت پاکستان کی کاوشوں سے وطن عزیز مزید ترقیوں کی سیڑھیاں عبور کررہا ہے تو دوسری جانب ایک پرتشدد سیاسی جماعت وفاق اور اداروں پر چڑھائی کا درس دے رہی ہے۔ایک طرف صبرو تحمل اور برداشت سے پاکستان کی بہتری کیلئے مذاکرات تک کی پیش کش کی گئی اور دوسری جانب غرور تکبر اور بس توڑ پھوڑ اور تشدد کا درس دیا جارہا ہے یہ ہے سب سے بڑا فرق ۔ پاکستان مسلم لیگ ن ہو یا پاکستان پیپلز پارٹی ان کے صبر برداشت اور ان کی وطن عزیز کی خدمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور دوسری جانب سیاسی بونوں کی جانب سے ہمیشہ بد زبانی ۔ بدکلامی ۔ بدتمیزی اورتشدد کلچر پروان چڑھایا گیا لیکن اب نہیں پاکستان کی خاطر اور عوام کی خاطر پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔