امریکہ کی مکمل تائید و حمایت کے ساتھ شرق اوسط کے ایک اوسط درجے کے منحنی سے ملک نے غزہ فلسطین میں انسانی تاریخ کی بدترین نسل کشی کرتے ہوئے ہزاروں بچوں ،عورتوں اور مردوں کو بلا امتیاز مذہب ، عقیدہ اور صنف قتل کر کے دنیا میں امریکہ کے معروف ” انسانی حقوق” کی نئی تعریف و تعبیر رقم کردی ہے۔ آزاد دنیا کے مہذب لوگ انسانیت کے نام پر غزہ کے المیہ پر احتجاج کرتے رہے اور قاتل ملک کے بارے میں۔جو بائیڈن کی حکمت عملی کو ہدف تنقید بناتے تھے، اب نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے پہلے ہی نظر آنے والے تیور مشرق وسطی کے منحنی سے ملک کی مکمل تائید و حمایت کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ستم ظرف کی تازہ تحقیق کے مطابق امریکہ میں صدر کی تبدیلی صرف امریکیوں کے لیے ہوا کرتی ہے ،اسرائیل کے لیے امریکی صدور کی پالیسیاں ہمیشہ یکساں اور اس منحنی ملک کے مقاصد و مفاد و اہدف کے مطابق اور معاون ہی رہتی ہیں۔ دراصل شرق اوسط میں پہلی جنگ عظیم کے بعد ترتیب دیئے گئے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد پختہ کئے گئے نقشے کو بنانے والے اب اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اس نقشے کو ازسر نو مرتب کرنا چاہتے ہیں۔دمشق تو ایک دارالحکومت ہے،ابھی بہت سارے دارالخلافے اسی سلوک کے منتظر معلوم ہو رہے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ انگریز نے پہلی اور دوسری عالمی جنگیں برصغیر کے مسلمان فوجیوں کے ذریعے لڑیں اور جیتی تھیں۔اب بھی مسلمان ممالک میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے وہ "مسلمان جنگجو” ہی استعمال کررہا ہے ۔ بیسویں صدی (اور اب اکیسویں صدی میں بھی) اسلام اور مسلمانوں کو جس طرح برطانیہ اور امریکہ نے اپنے عالمی ایجنڈے کی تکمیل اور اپنے پالتو "سنڈے” اسرائیل کی ترویج کے لیے استعمال کیا ہے ،اس کی تاریخ میں دوسری مثال نہیں ملتی۔مسلمان دنیا میں طبقاتی جدجہد کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے واسطے فرقہ وارانہ تقسیم کو ہوا دی گئی تھی ۔اب یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ رضا شاہ پہلوی کے ایران کو امام خمینی کے حوالے کرنے میں کیا حکمت پوشیدہ تھی۔دوسری طرف سعودی عرب کے ذریعے اسلام کی روح کو "سلامتی” کے دائرے سے نکال کر ” مخاصمت اور تباہی” کے راستے پر ڈال دیا گیا تھا۔اب خود سعودی عرب بھی اسی پکے ہوے سالن کا مزا کسی نہ کسی صورت اور کسی مختلف ذائقے کے ساتھ ضرور چکھے گا ، اور اس کے آثار ابھی سے دکھائی دے رہے ہیں۔ کیا اب شرق اوسط کا محور کوئی صیہونی ملک ہو گا؟۔ ہاں اگر ترکی ماضی کی عرب بغاوتوں کا حساب برابر کر کے خوش ہو رہا ہے تو یہ خوشی دیرپا ثابت ہونے والی نہیں لگتی ۔لیکن اس ساری صورت حال پر میں آزردہ ہونے ،اور یہ مصرع دھرانے کے سوا اور کیا کر سکتا ہوں ،کہ؛
مجھے فکر جہاں کیوں ہو،جہاں تیرا ہے یا میرا؟
ادھر پاکستان میں بھی کچھ نیا منظر وقوع پذیر ہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ۔اگر آپ پوچھ بیٹھیں کہ پاکستان کو اب کیا ہو گیا ہے تو جواب وہی ہے جس طرف علامہ اقبال پہلے ہی اشارہ کر چکے ہیں ،یعنی؛
وہی دیرینہ بیماری، وہی نا محکمی دل کی
اقبال نے اس بیماری کا علاج بھی بتا رکھا ہے لیکن وہ علاج پاکستانیوں پر موثر نہیں ہے۔ ہمارے ہاں اشارہ ابرو دیکھنے اور اس سے من کی مراد پانے کے لیے صرف امریکی آنکھیں ہی موثر خیال کی جاتی ہیں۔کبھی کبھی تو یوں گماں گزرتا ہے کہ یہ ملک امریکی مفادات اور عادات کی نگہبانی کرنے کے لیے ہی بنایا گیا تھا۔بغداد پیکٹ ، سیٹو اور سینٹو، افغان جہاد، نائن الیون کے بعد دانت کھول کر ہنسنے کی سزا کے طور دانت تڑوانے کا مظاہرہ اور پھر امریکہ کا افغانستان میں بیس سالہ قیام اور پاکستان کی طرف سے دیدہ و دل فرش راہ کرنے کی پیہم ڈیوٹی۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں امریکہ کے ایما پر پاکستان نے اپنے دفاعی بیانیئے میں ترمیم کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ؛ پاکستان کو باہر سے نہیں ، اندر سے خطرہ ہے۔اس انکشاف کے ساتھ ہی ، اس سے پہلے کہ یہ بیانیہ سننے والوں کی حیرت اور ہنسی کچھ تھم جاتی، اسلام آباد میں خصوصا اور ملک بھر میں عموما جگہ جگہ بم دھماکے ہونے لگے تھے ۔ان دھماکوں میں سے بیشتر خود کش بم دھماکے ہوتے تھے۔اس طرح سے گویا امریکہ نے پاکستان کے حکمت سازوں کی طرف سے افغان طالبان کے متوازی تیار کردہ دو نمبر طالبان (تحریک طالبان پاکستان ) کے لیے غیر محسوس طریقے سے مستقبل بعید کا نقشہ اور پروگرام وضع کر دیا تھا۔ پاکستانی حکمت ساز ، عمومی طور پر جن کا حکمت و دانش سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا، محض اپنے فوری فواید کو سامنے رکھتے ہوئے،اپنے اقدامات کے ملک پر دیرپا اثرات اور ان کے نتائج سے لاتعلق رہتے ہیں ۔ایک بیانیہ پھیلا کر کہ؛ یہ ملک خدا نے بنایا ہے ، لہذا وہی اس کی حفاظت بھی کرے گا، انہوں نے اپنے اپنے ضمیر مطمئن کر رکھے ہیں۔ گزشتہ حکومت نے افغانستان میں پناہ گزین نام نہاد تحریک طالبان پاکستان کے لوگوں کو، اپنے ساز وسامان سمیت واپس پاکستان بلا کر آباد ہونے کی اجازت دی تھی ۔ شاید اس دور کی مقتدرہ کو گمان تھایہ جنگجو اندرون ملک ان کے حمایتی اور مددگار ثابت ہوں گے۔ان فتنہ پروروں کو سوات اور وزیرستان کے بعض علاقوں تک رسائی دی گئی۔جس کے نتائج کا سامنا سب سے پہلے مقامی آبادی ںے کیا اور بے گھر ہوئی،اور اب پورا پاکستان ان کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔افغان حکومت نے ان تربیت یافتہ شرپسندوں کو اپنا اسٹرٹیجک اثاثہ بنا رکھا ہے ،جس طرح ماضی میں پاکستان نے انہیں اپنا اسٹرٹیجک اثاثہ بنا کر کلائی کی گھڑی اور گلے کا ہار بنا رکھا تھا ۔ملک میں متعدد خود کش بم دھماکے ،حتی کہ سب سے محفوظ اسکول میں ننھے بچوں کا بے دریغ قتل، کیا کیا نہیں ہوا اس ملک میں انہی "اثاثوں” کے طفیل۔لیکن حیرت انگیز اور افسوسناک امر یہ ہے کہ؛آج بھی ملک میں ان سے یک جہتی اور محبت کا دم بھرنے والی سیاسی جماعتیں موجود اور متحرک ہیں۔ایسے میں دنیا میں کوئی شخص بھی یہ اندازہ قائم نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں کون کس کے ساتھ کھیل رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ خطے کی تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر تحریک طالبان پاکستان نے افغان حکومت کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر ایک تواتر کے ساتھ جان لیوا حملے کرنے کے بعد اب باقاعدہ جنگ کا آغاز کر دیا ہے ۔ اس میں کئی باتیں افغانستان کے لیے اپنے پرامن ملک پاکستان کی چٹنی بنانے والے ماضی اور حال کے حکمت سازوں کے منہ پر زناٹے دار طمانچوں کی طرح نظر آرہی ہے۔مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں کئے گئے حملے کا اعلان و اعتراف کرتے ہوئے افغان وزارت دفاع نے بیان دیا ہے کہ طالبان فورسز نے پاکستان کے اندر متعدد مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔ افغان وزارت دفاع نے پاکستان پر حملے کو ورچوئل لائن کے پار علاقوں پر حملہ قرار دیا ہے ۔وہ ڈیورنڈ لائن کو دو ملکوں کے مابین سرحد تسلیم نہیں کرتے، اور اس لائن کی پاکستانی طرف واقع علاقوں کو پاکستان کا حصہ تسلیم نہیں کرتے ۔افغانستان کی طرف سے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مل کر پاکستان پر حملہ کرنے سے ایک قدیم دیہی لطیفہ یاد آ گیا۔ پنجاب کے قدیم دیہات میں اگر بوجہ عداوت کسی نے گاوں کے چودھری کی توہین کرنی ہوتی تھی، تو وہ گاوں کے خاکروب کو کچھ پیسے دے کر چودھری سے سرعام الجھنے اور گالیاں دینے پر آمادہ کر لیتا تھا۔یہ جانتے ہوئے کہ چودھری لوگ چوہڑوں کے منہ نہیں لگتے،خاکروب ایسا کر گزرتا،اور چودھری ان سنی کر کے اپنی راہ لیتا۔چودھری خاکروب کی حرکت پر سرزنش اس لیے نہیں کرتا تھا کہ وہ بجا طور پر کسی خاکروب کے ساتھ قضیئے کو اپنے وقار کے منافی سمجھتا تھا۔ سچ کہتے ہیں کہ انسان اپنے دشمنوں کے معیار سے بھی پہچانا جاتا ہے ۔ حالیہ افغان حملوں سے یہی بات سامنے آئی ہے کہ "کسی شرپسند” نے "چودھری” کو خجل کرنے کی خاطر ٹی ٹی پی کے مفروروں اور افغان حکومت سے حملہ کروا کر اپنی عداوت کی آگ کو ٹھنڈا کیا ہے۔ افغان معیشت دراصل جنگ و جدل کی معیشت ہے ۔جب امریکی افواج نے افغانستان سے انخلا کرتے وقت کروڑوں ڈالرز کا اسلحہ پلیٹ میں رکھ کر ان کے خدمت میں پیش کیا تھا ،تو ہر عقل مند اور باشعور شخص کو سوچنا چاہیئے تھا کہ امریکہ کی طرف سے بندر کے ہاتھ میں استرا پکڑانے میں کیا حکمت پوشیدہ تھی؟ ستم ظریف ٹی ٹی پی اور افغان حکومت کی طرف سے حملے کو ڈیورنڈ لائن کو پاکستان کے ساتھ مستقل جنگ کا عنوان بنانے کا سرکاری اعلان قرار دے رہا ہے۔یہ جنگ گوریلا طرز پر جاری رکھنے کی کوشش کی جائیگی اور اس جنگ کاسب سے خطرناک عنصر خود پاکستانی سیاستدانوں اور دفاعی حکمت سازوں میں ٹی ٹی پی کے حمایتی اور پنچائتی عناصر کی موجودگی ہے ۔ صورت حال پریشان کن اور الجھی ہوئی ہے لیکن اس الجھاو میں میرا کوئی حصہ یا ہاتھ شامل نہیں ہے ۔میں صرف علامہ اقبال کے شعر پڑھ کر خود کو تسلی دے سکتا ہوں، آپ بھی یہ کوشش کر سکتے ہیں؛
اگر کج رو ہیں انجم ، آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو ، جہاں تیرا ہے یا میرا؟
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب! لامکاں تیرا ہے یا میرا؟
کالم
مجھے فکر جہاں کیوں ہو
- by web desk
- جنوری 1, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 272 Views
- 7 مہینے ago