کالم

محسن انسانےت غےر مسلموں کی نظر مےں

جب دنےا انسانےت پر گھٹا ٹوپ اندھےرا چھاےا ہوا تھا ،ظلم و بربرےت عروج پر تھی،قتل و غارت کا بازار گرم تھا ،شرک و بت پرستی عام تھی الغرض ہر اعتبار سے اولاد آدم بحثےت مجموعی شر مےں مبتلا اور خےر سے محروم ہو چکی تھی اےسے مےں تارےخ اےک انقلابی قوت کی متلاشی تھی ۔انسانےت اپنے آخری نجات دہندہ کی منتظر تھی کہ اصحاب فےل کے واقعہ کے پچپن دن بعد جناب آمنہؓکے ہاں امےن الہٰی کی مدت ختم ہوئی اور وہ دن آگےا کہ ودےعت الہٰی کا وہ ناےاب گوہر ،قدرت الہٰی کا وہ ناےاب جوہر ،علم و القان کا محزن ،عرفان و اتقان کا معدن ،بشارت موسیٰ کا مدعا ،عےسیٰ کا مقتضاء،اہل وحدت کا معلم ،افضل المرسلےن ،خاتم النبےن ،شہنشاہ کونےن ،رسول ثقلےن ،فخر عبداﷲؓ،ناز پروردہ آمنہؓ حضرت محمد ہی رحمت الٰہےہ اور برکت قدسےہ کا اسوہ حسنہ بن کر 12ربےع الاول کو رونق گلستان عالم ہوئے ۔اشرف کائنات ،شفےع روز محشر ،سےد المرسلےن محمد مصطفی کے ا خلاق و ا وصاف شرفےہ کو لکھنا اےسا ہے جس طرح کوئی چاہے کہ درےا کے پانی کی کس پےمانے سے پےمائش ےا جےسے کوئی چاہے کہ آفتاب کو اپنے گھر کے درےچہ سے مکان مےں داخل کرے ۔ےہ آپ کی ذات کی عظمت ہے کہ اپنے ہی نہےں بےگانے کی تارےخ مےں رطب اللسان ہےں ۔آپ کی عظےم شخصےت آپ کا خلق عظےم اور آپ کی سےاسی اور تارےخی عظمت اےسے حقائق ہےں جن کا علم ہونے پر کوئی غےر مسلم بھی اپنے تعصبات مےں قےد نہےں رہ سکتا ۔اس اجمال کی تفصےل بےان کی جائے تو لاتعداد ضحےم کتابوں کی ضرورت ہے ۔ان مےں سے صرف چند کے خےالات اپنے معزز قارئےن کی خدمت مےں پےش خدمت ہےں ۔پروفےسر لےو نارڈ اپنے اےک مقالے مےں لکھتا ہے کہ ” حضرت محمد سے بڑھ کر کوئی مخلص اور سچا آدمی پےدا نہےں ہوا ۔آپ ذکاوت اور اخلاص کے پےکر تھے ۔“ اےک بھارتی غےر مسلم راما کرشنا راﺅ اپنی کتاب ”ﷺ“ مےں لکھتا ہے کہ آپ کی شخصےت کے کل تک پہنچنا مشکل ہے ۔مےں رسول پاک کی صرف اےک جھلک دےکھ سکتا ہوں ۔خوبصورت مناظر کی کےا خوبصورت سلسلہ ہے ۔آپ جرنےل ہےں ،آپ بادشاہ ہےں ،آپ سپہ سالار ہےں ،آپ تاجر ہےں ،آپ فلاسفر ہےں ،آپ خطےب ہےں ،آپ مصلح ہےں ،آپ ےتےموں کی پناہ گاہ ہےں ،آپ عورتوں کے نجات دہندہ ہےں ،آپ جج ہےں ،آپ ولی ہےں ۔ےہ تمام اعلیٰ اور عظےم الشان کردار اےک ہی شخصےت کے ہےں “۔مصنف مذکور مزےد لکھتا ہے کہ ” آپ کے کارنامے کسی اےک شعبہ زندگی تک محدود نہےں ہےں بلکہ انسانی زندگی کے تمام پہلوﺅں پر محےط ہےں ۔مثال کے طور پر کسی قوم کی اصلاح کرنا عظمت کی علامت ہے تو اس کا سہرا آنحضرت کے سر سجھتا ہے ۔عرب قوم بر برےت کا شکار تھی اور اخلاقی پسماندگی کی اےسی گہرائےوں مےں ڈوبی ہوئی تھی کہ اس کی مثال نہےں ملتی ۔آپ نے اس کی کاےا پلٹ دی ،ہئےت بدل دی اور پوری قوم کو سربلند کرو ےا اگر عظمت معاشرہ کے منتشر عناصر کو بھائی چارے اور اخوت مےں پرو دےنے کا نام ہے تو ےہ اعزاز بھی اﷲ کے رسول کےلئے خاص ہے ۔اگر عظمت شکوک و توہمات اور لاےعنی رسومات سے نجات دےنے کا نام ہے تو آپ کو آپ کے دوستوں اور دشمنوں نے ”الصادق اور الامےن “ قرار دےا ۔اگر فاتح عظےم ہوتا ہے تو ہمارے سامنے اےک اےسا شخص ہے جو بے سہارا اور ےتےم اور عام انسان کے درجے سے سر بلند ہو کر عرب کا حکمران بن جاتا ہے اےک اےسا حکمران جس نے اےک عظےم الشان حکومت کی بنےاد رکھی جو آپ کے چودہ سو برس بعد بھی قائم ہے ۔اگر عظمت کا معےار قائد سے اس کے پےروکاروں کا لگاﺅ اور عشق ہے تو آپ کا نام دنےا بھر مےں پھےلے ہوئے کروڑوں چاہنے والوں کے دلوں کےلئے آج بھی طلسماتی کشش رکھتا ہے ۔آپ نے اےتھنز، روم ،اےران ،ہندوستان ےا چےن کے مکتبوں سے فلسفہ کی تعلےم حاصل نہ کی تھی اس کے باوجود آپ انسانےت کے سامنے دائمی سچائےاں اور اصول پےش کرتے رہے ۔آپ اس وضاحت اور لطافت سے گفتگو فرماتے کہ فرط تاثر سے سننے والوں کی آنکھوں مےں آنسو بہہ نکلتے۔“ اےک اور مصنف جوزف سکاچ نے آپ کی کامےابےوں کو ےوں خراج عقےدت پےش کےا ہے ”حضور ﷺ کی شخصےت کا جو پہلو مثبت سے ابھرا وہ آپ کا دلی جذبہ تھا جب اس کا امتزاج آپ کی غےر معمولی سےاسی صلاحےتوں سے ہوا تو آپ کی رسالت دنےا مےں ہی کامےابی سے ہمکنار ہو گئی ۔مکہ مےں آپ کا صبرو استقلال اور مدےنہ مےں آپ کے مدبرانہ اعمال کی اس نظرےاتی جدوجہد کے مظاہر تھے جس کےلئے آپ ساری عمر انتھک کوشش کرتے رہے ۔آپ کی غےر معمولی شخصےت نے ،جس کے اثر و نفوذ نے آپ کی کامےابی کی راہےں ہموار کےں اور اسلام پر اپنے انمٹ اثرات چھوڑے ۔“ اقوام مشرق کے افکارو عمارات مےں رسول ﷺ کی سےرت اور تعلےمات نے جو حےرت انگےز انقلاب برپا کےا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے اےک مصنف باسورتھ سمتھ لکھتا ہے کہ صبح دم اس کی آواز اس بات کی گواہی دےتی ہے کہ جہاں بھی رسولﷺ عربی کا پےغام پہنچا اس کا روائتی سستی اور آرام پر بھی گہرا اثر پڑا ۔ےہ دعوت آج بھی گواہی دےتی ہے کہ محمدﷺ کو دنےا مےں اﷲ کی حکومت کے قےام پر ، انسان کی آزادی فکر پر کتنا گہرا ےقےن تھا ۔“ اےم اےن رائے اےک ہندو جو کےمونسٹ انٹر نےشنل کا ممبر تھا دنےا کے چوٹی کے انقلابی لوگ اس کے ممبر تھے ۔وہ اپنی کتاب مےں لکھتا ہے کہ تارےخ انسانی کا عظےم تر انقلاب وہی تھا جو محمد عربی نے برپا کےا تھا ۔حضور کے جانثاروں نے جس سرعت کے ساتھ فتوحات حاصل کےں اور عراق شام اےران مصر جس تےزی کے ساتھ فتح کئے اگرچہ اس تےزی کے ساتھ تارےخ انسانی مےں فتوحات پہلے بھی ہوئی ہےں رےکارڈ پر ہے کہ سکندر اعظم مقدونےہ سے چلا تھا اور درےائے بےاس تک پہنچا اور وہ تےزی کے ساتھ فتح کرتا ہوا آےا وہ اپنی جگہ بہت بڑی مثال ہے ۔وہ تو مغرب سے مشرق کی طرف آےا تھا جبکہ انےلہ مشرق سے مغرب کی طرف گےا تھا لےکن اےم اےن رائے کہتا ہے کہ ان فاتحےن کی فتوحات محض ملک گےری کا شاخسانہ تھےں ۔ان کے نتےجے مےں کوئی تہذےب ےا کوئی نےا تمدن وجود مےں نہےں آےا ،دنےا مےں کوئی روشنی نہےں پھےلی ،کوئی علم کا فروغ نہےں ہوا جبکہ محمد عربی کے جانشےنوں کے ذرےعے سے شرقاً غرباً جو فتوحات بڑی تےزی کے ساتھ ہوئی ہےں ان کے نتےجے مےں اےک نےا تمدن ،نئی تہذےب ،علم کی روشنی اور انسانی اقدار کا فروغ وجود مےں آےا ۔اےک اےسا معاشرہ وجود مےں آےا جو ہر طرح کی زےادتےوں سے پاک تھا ۔اس مےں سےاسی جبر نہےں تھا ۔اس مےں معاشی استحصال نہےں تھا ۔اس مےں کوئی سماجی تفاوت نہےں تھا ۔دنےا مےں اور بھی بڑے بڑے لوگ رہتے ہےں جو سالہا سال تک پہاڑوں کی غاروں کے اندر تپسےائےں کرتے رہے ہےں لےکن محمدعربی نے غار حرا مےں چند روز کےلئے جو خلوت گزےنی اختےار کی وہ نتےجہ خےز تھی اس سے نئی قوم ،نےا تمدن ،نےا آئےن اور حکومت وجود مےں آ گئی ۔“ ان چند اقتباسات سے ےہ حقےقت روز روشن کی طرح عےاں ہوتی ہے کہ اگر کوئی غےر مسلم بھی رسول اکرم کی سےرت طےبہ کا بے تعصبی سے مطالعہ کرتا ہے تو بے ساختہ آپ کی عظمت کا اعتراف کئے بغےر نہےں رہ سکتا ۔آج انسان بےشمار روحانی اور معاشرتی مسائل کا شکار ہے ۔ان جملہ روحانی اور معاشرتی مسائل کا حل سےرت طےبہ کے عملی پہلوﺅں کو اجاگر کرنے اور ان کو رہنما بنا کر ان پر عمل کرنے مےںپنہاں ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri