سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیل پر پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے سے حکومتی حلقوں میں ایک بھونچال کی سی صورتحال ہے ۔ وہ اسے عدلیہ کا ایک غلط فیصلہ قرار دے رہے ہیںاور اس فیصلے کی بنیاد پر عدلیہ کے ججز پرتنقید کے نشتر برسائے ہوئے ہیں جو کہ مناسب بات نہ ہے۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ اگر فیصلے پی ڈی ایم حمایت میں آئیں تو عدلیہ ٹھیک ،اس کے ججز باکمال اور فیصلے اعلیٰ اور اگر فیصلہ خلاف ہو تو عدلیہ اور ججزکے خلاف باتیں اور فیصلہ ٹھیک نہ جیسی ہرزہ سرائی ۔ عدلیہ پر تنقید کرنا بنتاہے مگر کسی حد تک مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتاہے کہ آپ اسے اپنی ذاتی اناءہی بنالیں اور عدلیہ کے فیصلے کو یکسرماننے سے ہی انکار کردیں ۔ اس فیصلے کی بنیاد پر معز ز عدلیہ اور اس کے معزز ججز صاحبان کی کردارکشی شروع کردیں کہ یہ ججز ایسے ہیں اور انہوں نے ایسے فیصلے دئیے ہیں ۔ اس طرح کی یاوا گوئی سیاست میں تو جگہ پالیتی ہے عدالت میں نہیں ٹھہر سکتی ہے۔ناجانے کیا بات ہے کہ ہمارے سیاستدان سمجھتے ہی نہیں ہیں اور وہ وہ غیر مناسب حرکتیں اور باتیں کرتے ہیں کہ بعدمیں اپنی انہی باتوں پر پچھتاتے ہیں۔ ایسے تمام سیاستدان جو اپنی پتلی سیاسی صورتحال پر نالاں ہیں،عدلیہ پر خائف نظر آتے ہیں۔پشین گوئی ماہر”مہان سیاستدان“ سابق وفاقی وزیر و موجودہ سینٹر فیصل واڈا کا انجام یاد رکھیں کہ کیسے اپنی انوکھی، دل دہلا دینے والی اور مبنی بر سنسنی ، بے ترتیب اور بے خیال باتوں پر سپریم کورٹ طلبی پر معافی کی درخواست کرتے معافی مل جانے اور جان چھوٹ جانے پر سپریم کورٹ چوکھٹ پر سجدہ ریز تھے۔یہ وہ سیاستدان ہیں جو حادثاتی سیاست کی پیداوار ہیں اور اسی کے بنائے ہوئے ہیں جس پر برستے ہیں ۔نہ جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ سیاست کی راہ داریوں میں ان کی کیسے انٹری ہوئی اور کیسے لائے ہوئے ہیں۔ نہ جانے کیا ہے کہ اپنے آپ سے بیگانے سے پھرتے ہیں باقی سب کے راز پائے ہوئے ہیں۔ یہ ایسے فرد ہیں کہ یہ دوسروں کا حال چال کی روشنی میں بتاتے ہیں اور ان کی اپنی فال کتنی ڈگمگائی ہوئی ذرا سابھی نہیں جانتے ہیں۔ جب سے یار نے چھوڑا ہے پہلے ہی حال وبے حال سے تھے اب تو اور یار پاکر بھی پریشان سے ہیں ۔ اکثر شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں شیخ رشید سے بھی زیادہ اونٹ پٹانک مارے ہوئے ہیں اور ہمارے الیکٹرونک میڈیا کے دوست بھی چٹ پٹی ،کٹھی میٹھی مستند غیر مستند خبروں کیلئے سب سے پہلے ، وقت سے پہلے کے چکروں میں ان کو مسلسل چلائے ہوئے ہیں ۔ذرا سا بھی نہیں دیکھتے ہیں کہ کیا کررہے ہیں ،کیوں کررہے ہیں،کس لیے کررہے ہیں ۔ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کا حق ، اسے ملنی چاہئیں کے عدالتی فیصلے کے بعد بہت سے سیاستدانوں کی سیٹی گم ہوئی پڑی ہے اور پی ڈی ایم تو مسلسل سو گ میں ہے۔ اب تو حکومتی معاملہ کچھ یوں ہے کہ ”بکھری پڑی ہے عاشقی ، اتحادی تیرے قدموں میں “ ۔حکومتی و اتحادی سیاسی بیٹھکیں بتا رہی ہیں کہ سیاست کی راہداریوں میں کچھ انوکھا ، نیا ،الگ اور سب سے منفرد سا ہوگیا ہے جس کی پاکستانی سیاسی واداراتی ماحول میں یہ امید نہ رکھتے تھے۔ ہائے یہ کیا ہوا ، کیا سمجھتے تھے ،کیا پایا ہے۔ حالت ایسی ہے کہ جیسے بتا رہے ہوں کہ ہمارے ساتھ ”ہتھ“ ہوگیا ہے۔ آخرایسا کیوں؟ یہ دھوکہ آخرکیوں؟ہم تو امید سے تھے ،یہ کیا بن گیا ہے ۔ ہائے یہ سیاست کے دھوکے ،ہم نے اپنے دل پر روکے۔ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کے فیصلے پر معزز عدلیہ کے معزز ججز صاحبان پر سب سے زیادہ تنقید فیصل واڈا ٹائپ لوگ،ایم کیو ایم، ق لیگ والے ،ن لیگ والے کررہے ہیںاور کیوں کر رہے ہیں ،دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ راقم الحروف کے مطابق ان سب بشمول فیصل واڈا کا ٹائی ٹینک ڈوبنے والا ہے ۔ اسی پیشگی خطرے کو بھانپتے ہوئے پہلے سے ہی چیخ و پکارجاری ہے۔یہ جانتے ہیں کہ کچھ فیصلوں کے رونما ہو جانے سے یہ تو گئے ۔سرکاری راہداریوں سے لے کرمیڈیا ٹاک تک سارا رونا دھونا اسی وجہ سے ہے۔ اب تک کی جو سیاسی و اداراتی صورتحال جونظر آرہی ہے ،ایسا بہت قریب ہے ۔ بانی پی ٹی آئی کو بہت زیادہ مشکلات میں دیکھنے والے خود کرب و تکلیف میں جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ یہ غداری کے مقدمے ، آرٹیکل 6 اور پی ٹی آئی پر پابندی لگانے جیسی باتیں صرف اور صرف اپنا دل بہلانے کیلئے غالب خیال اچھاوالی بات ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہونے والا ہے او ررہی بات فچ ادارے کی رپورٹ کی تو یہ بھی بے وقت کی راگنی اور اپنی تنظیمی اہمیت و افادیت کو بڑھانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ کہنا کہ فچ رپورٹ درست ، ایسا کچھ ہونے والا ہے ۔ٹیکنو کریٹ حکومت میں شامل ہونے کیلئے لوگ تیار بیٹھے ہیں اور آئینی بحران کا خدشہ موجود ہے ، جیسی باتیں ایک دل کا وہم ،ڈر اور ایک خدشہ زیاد ہ ہے۔ایسا کچھ بھی نظرنہیں آرہا ہے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آنے کے بعد الیکشن ٹربیونل فیصلے بھی ایک ساتھ ہی سنائے جائیں اور بمطابق فارم 45 ریورس ہو جائیںتو پی ڈی ایم کا جانا فائنل ہو جاتا ہے او رپی ٹی آئی حکومت کے قائم ہونے کے واضح امکان ہیں۔ یہ حکومت سے جانا کیسا ہوگا،اہم سوال یہ ہے۔استعفیٰ شکل میں ، اسمبلی توڑ کر یا تحریک عدم اعتماد کے نتیجہ میں ۔ سابقہ روایات جو ہمارے ملک میں جڑ پکڑ چکی ہے اس میں اسمبلی توڑنے کی نوبت والی بات کا امکان ختم ہے۔ استعفیٰ یا عدم اعتماد ۔۔۔کوئی ایک آپشن چلے گا ۔ایک بطور عبرت جائے گا تو دوسرا شان سے آئے گااور یہ اسمبلی ریت بن چکی ہے اور طریقہ انتخاب بھی ۔ حل تو یہی ہے باقی تو ڈراوے ہیں۔ دیکھئے کہ گزرتے وقت کے ساتھ کیا ہوتا ہے ۔خدا ارض ِ وطن کی حفاظت کرے اس پر کیا عجب وقت آن پڑا ہے۔