حالیہ سیاسی بحران اور اس کے نتیجے میں دائر ہونے والے کئی اہم کیسز میں سے گزشتہ روز ایک اہم کی ابتدائی سماعت ہوئی جس میں تین رکنی معزز جج نے قومی اورصوبائی اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین( سنی اتحاد کونسل)کے حصے میں آنے والی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں بانٹنے سے متعلق الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔حکم امتناع کا اطلاق موثر بہ مستقبل ہوگا اور معطل ہونے والے اراکین نے حلف اٹھانے کے بعد اگر کسی پارلیمانی کارروائی میں حصہ لیا ہے تو حکم امتناع سے وہ متاثر نہیں ہوگا۔فیصلے کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 3جون تک ملتوی کردی۔جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پیرکے روز الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف سنی اتحاد کونسل کی درخواست باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے ریکارڈ طلب کرلیا ، عدالت نے تمام مخالف فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے۔سماعت کے آغاز پر وفاقی حکومت نے لارجر بنچ تشکیل دینے کی استدعا کی ،وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے کہا کہ اپیلیں لارجر بنچ ہی سن سکتا ہے لیکن عدالت نے بنچ پر اعتراض مسترد کر دیا۔اسی طرح مخصوص نشستوں پر نامزد خواتین ارکان اسمبلی کی جانب سے بھی بنچ پر اعتراض کیا گیا تھا۔وکیل خواتین ارکان اسمبلی نے عدالت کو بتایا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 51کی تشریح کا مقدمہ ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت کیس 5رکنی بنچ سن سکتا ہے۔اسکے جواب میںجسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ کیس آئین کے آرٹیکل185کے تحت اپیل میں سن رہے ہیںجبکہ موجودہ کیس آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر نہیں ہوا۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ابھی تو اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ ہونا ہے، قابل سماعت ہونا طے پا جائے پھر لارجر بنچ کا معاملہ بھی دیکھ لیں گے۔اسکے ساتھ ہی سنی اتحاد کونسل کے وکیل ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کر دیا۔تین رکنی بینچ کے اس فیصلے نے بظاہر پی ٹی آئی کے موقف کی تائید کی ہے تاہم کیس کا حتمی نتیجہ کیا نکلتا ہے وہ آنے والا وقت بتائے گا۔دوران سماعت معزز ججزنے انتہائی سخت ریمارکس دیئے اور اہم نکات اٹھا کر الیکشن کمیشن کے وکلا کو لاجواب کر دیا۔ دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ کیسے ممکن ہے کسی کا مینڈیٹ کسی اور کو دے دیا جائے، قانون میں کہاں لکھا ہے بچی ہوئی نشستیں دوسری جماعتوں میں تقسیم کردی جائیں، اصل مسئلہ عوامی مینڈیٹ کا ہے اور ہمیں اسکی حفاظت کرنی ہے۔اسی طرح جسٹس اطہر من اللہ نے بھی اہم نکات اٹھائے،انہوں نے کہا کہ جس جماعت کی جتنی نمائندگی ہے اتنی ہی مخصوص نشستیں ملیں گی۔ عدالت نے قرار دیاہے کہ اٹارنی جنرل کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جس میں آئین کے آرٹیکل 51کی تشریح کی جائیگی، عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 17کے تحت آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کا کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونا بنیاد ی حق ہے اور الیکشن کمیشن کے 25اپریل 2024کے نوٹیفکیشن کے مطابق آزاد منتخب ہونے والے 82اراکین قومی اسمبلی سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے ہیں، بادی النظر میں پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعت کو اس کی نمائندگی سے زیادہ مخصوص نشستیں دینا نامناسب اور سنی اتحاد کونسل میںشامل ہونے والے عوامی نمائندوں کے حصے میں آنے والے مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں بانٹنا متناسب نمائندگی کے آئینی اصول سے متصادم ہے۔دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے لیے کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ آئین کا مینڈیٹ اہم ہے، الیکشن کمیشن چاہے جو کرتا رہے ہم نے معاملہ آئین کے مطابق دیکھنا ہے ،عوام نے جس کو مینڈیٹ دیا ہے ہم نے اسکی حفاظت کرنی ہے۔جسٹس مصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان کا آغاز بھی ایسے ہی ہوتا ہے کہ عوامی امنگوں کے مطابق امور انجام دیئے جائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ کیا دوسرے مرحلے میں مخصوص نشستیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں؟جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر مزید کچھ سیٹیں بچ جائیں ان کا کیا کرنا ہے؟جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں اپنے تناسب سے تو نشستیں لے سکتی ہیں، باقی نشستیں انہیں کیسے مل سکتی ہیں؟ کیا باقی بچی ہوئی نشستیں بھی انہیں دی جا سکتی ہیں؟ قانون میں ایسا کچھ ہے؟جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اگر قانون میں ایسا نہیں تو پھر کیا ایسا کرنا آئینی سکیم کے خلاف نہیں؟جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سوموٹو اختیار سے بچی ہوئی نشستیں دوبارہ انہیں جماعتوں کو نہیں دی؟جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جو کام ڈائریکٹ نہیں کیا جاسکتا وہ ان ڈائریکٹ بھی نہیں ہو سکتا، ایک سیاسی جماعت کے مینڈیٹ کو ان ڈائریکٹ طریقے سے نظر انداز کرنا کیا درست ہے۔اہم نوعیت کے اس کیس کے ملکی سیاسی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں،جس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے من چاہے فیصلے کے بڑی عدالت سے اڑ جانے کی صورت میں حکومت کو شدید لگے گا۔حکومتی اتحاد کو جس طرح ادھر ادھر سے سیٹیں اکٹھی کر کے دی گئیں،وہ عارضی آشیانہ ثابت ہوئیں اوربھاری اکثریت کا خواب بکھرتا محسوس ہوتا ہے،تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کوکسی کی خواہشات کی تکمیل کی نہیں آئین اور قانون کی حقیقی بالادستی کی ضرورت ہے جس کے لئے عدالتیں ہیں اہم رول ادا کر سکتی ہیں۔
حماس جنگ بندی پر راضی، اسرائیل کا انکار
فلسطین میں جاری حالیہ جنگ کو روکنے کےلئے کی جانے والی کوششوں میں، حماس کے رہنما اسمعیل ہانیہ نے قطر اور مصر کی ثالثی کو قبول کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کی تجویز کو قبول کر لیا ہے۔ گروپ نے اپنی سرکاری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ تحریک حماس کے سربراہ نے قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی اور مصری انٹیلی جنس کے وزیر عباس کامل کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کی اور انہیں حماس کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے کے متعلق تجویز کی منظوری سے آگاہ کیا ہے۔ حماس نے مصر اور قطر کی ثالثی میں کیے جانے والے جنگ بندی کے معاہدے کی شرائط پر اتفاق کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم اسرائیل نے اس معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاہدہ انکے اہم اور بنیادی مطالبات سے مطابقت نہیں رکھتا اور مزید یہ کہ اسرائیل اب ایک قابل قبول معاہدے کے لیے مصر میں اپنا ایک وفد بھیج رہا ہے۔ دوسری جانب حماس کی جانب سے جنگ بندی کی شرائط رضامندی کا اعلان سامنے آنے کے فوراً بعد اسرائیلی فوج نے رفح کے مشرقی حصے میں مخصوص اہداف کو نشانہ بنانے کا دعوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ تازہ ترین حملوں سے قبل انھوں نے فلسطینیوں کو علاقہ خالی کرنے کی ہدایات جاری کیں جس کے بعد ہزاروں لوگ رفح کے شمال میں واقعے اس حصے کی جانب منتقل ہو گئے ہیں جسے اسرائیلی فوج نے ہیومینیٹیرین ایریا قرار دے رکھا ہے۔ اسرائیل کے مطابق رفح میں ہونے والا یہ فوجی آپریشن ٹارگٹڈہے۔ اسرائیل کے تازہ حملے کے جواب میں فلسطینی اسلامی جہاد نے حماس کے ساتھ مل کر جنوبی اسرائیل پر راکٹ فائر داغے ہیں۔وائٹ ہاو¿س کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان بات چیت ایک نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور ان کے مطابق میں نہیں سمجھتا کہ یہ معاملہ اس سے قبل کبھی اتنا حساس تھا۔حماس کے غیرمتوقع فیصلے کے بعد نتن یاہو کو مشکل فیصلوں کا سامنا ہے۔حماس کی جانب سے جنگ بندی کی شرائط قبول کرنے کے اعلان نے بیشتر مبصرین کو حیران کر دیا ہے اور اگلے چند ہفتوں میں کیا کچھ ہو سکتا ہے، اس کے بارے میں اسرائیل کی توقعات کو دھچکا پہنچایا ہے۔ اسرائیل میں عام خیال یہ تھا کہ حماس جنگ بندی کی شرائط کو قبول نہیں کرے گا۔
اداریہ
کالم
مخصوص نشستوں کا کیس، تین رکنی بینچ کا اہم فیصلہ
- by web desk
- مئی 8, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 570 Views
- 10 مہینے ago