کالم

مذاکرات- ایلچیوں کو رسوا نہ کریں!

مذاکرات- ایلچیوں کو رسوا نہ کریں!

تحریر: عرفان صدیقی
میڈیا چو پالوں کی گرم بازاری کے باوجود پی۔ٹی۔ آئی سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ سنجیدہ، با مقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لئے کوئی ٹھوس پیش رفت کر سکتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹھہرا ، سبھا ، مکالمہ، بات چیت، افہام و تفہیم اس کی سرشت میں ہی نہیں ۔ دوسرا سبب یہ کہ وہ سیاستدانوں کے بجائے آج بھی اسی بارگاہِ فیض کی طرف دیکھ رہی ہے جہاں سے ماضی میں اسے فیضان حاصل ہوا۔ سو وہ مذاکرات کے عنوان سے پنگ پانگ کھیل رہی ہے۔ محمود خان اچکزئی کمیٹی کو اڑان بھرنے سے پہلے ہی بے ذوق لطیفہ بنادیا گیا۔ بار بار باور کرایا جارہا ہے کہ اچکزئی نے خود ہی ثالثی کی دستار اپنے سر پہ سجالی ورنہ ہم تو چوروں اور ڈاکوں کو منہ لگانے کے روادار نہیں۔ بیرسٹر گوہر نے اچکزئی صاحب کی اس تمنائے بے تاب کا ذکر خان صاحب سے کیا اور انہوں نے بندھی بندھائی مجبور و بے بس سی دیہاتی دلہن کی طرح ہاں کر دی ۔ اگلے ہی دن وضاحت جاری کی گئی کہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ پی ٹی آئی اب غاصبوں سے مذاکرات پر آمادہ ہوگئی ہے۔ مینڈیٹ چرانے والوں سے کوئی بات نہیں ہو سکتی ۔ 15 جون کو ایک با ضابطہ پریس کانفرنس میں پارٹی ترجمان نے وضاحت کی اگر محمود خان اچکزئی تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پلیٹ فارم سے، کسی کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کی مرضی ہے۔ بانی چیر مین نے صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ ہم کسی بھی پارٹی سے کوئی مذاکرات نہیں کر رہے۔ بانی چیر مین چوروں سے کسی قسم کی بات چیت پر آمادہ نہیں ۔”
ایک ٹی۔ وی شو میں رف حسن نے دوٹوک لفظوں میں کہا ہم نے اچکزئی کو کوئی اختیار نہیں دیا۔ ہماری پوزیشن واضح ہے۔ہم مینڈیٹ چوروں سے کوئی رابطہ نہیں چاہتے ۔ تین چار دن قبل خود خان صاحب نے کہا ہم ن لیگ سے کیا بات کریں؟ موسم کاحال پوچھیں؟ مذاکرات اس طرح نہیں ہوا کرتے۔ محمود خان اچکزئی کوئی آفر لے کر آئیں گے تو مذاکرات کے بارے میں سوچیں گے۔ ناچیز کی کوئی آخر ے کر آئیں گے تو مذاکرات کے بارے میں سوچیں گے۔ اچکزئی صاحب کی پشت پناہی کے بجائے پی۔ٹی۔ آئی تاثر دے رہی ہے کہ وہ تو محض ایک خود ساختہ ہرکارہ ، قاصد یا انیچی ہے جو حکومت سے خان صاحب کے لئے کوئی بڑی آفر لینے جا رہا ہے۔ وہ آفر کی کوئی اچھی سوغات لے آیا تو ویٹو پاور کے حامل خان صاحب فیصلہ کریں گے کہ مذاکرات کئے جائیں یا نہیں ۔ عبدالصمد اچکزئی کا 76 سالہ فرزند محمود خان بھی کیا سو چتا ہو گا کہ یہ میں کسی قافل بے راہو منزل کی طرف آنکلا ہوں ۔ مرد کہستانی سے میری پرانی یاد اللہ ہے۔ وہ مروت کے سلیقوں اور محبت کے قرینوں سے بخوبی آگاہ ہے لیکن6 کھراپشتون ہونے کے ناتے عزت نفس کے حوالے سے بھی بے حد حساس ہے۔
عمران خان نے ایک اور دلچسپ بات کہی اگر میرے پیچھے ہٹنے سے پاکستان کا کوئی فائدہ ہوتا ہے تو مجھے مطمئن کریں۔ یہ ایک ایسی کڑی شرط ہے جو کم از کم پاکستان کے کسی ذی روح کے بس کی بات نہیں۔ کون ہوگا ایسا مر دہنر کار جو خان صاحب کو مطئمن کر سکے یا ان کے موقف کے سامنے اپنی دلیل کا چراغ جلا سکے ۔ پاکستان کے فائدے کے حوالے سے بھی خان صاحب جدا گانہ اور منفرد معیار رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک طویل دھرنوں کے ذریعے 2014 میں چینی صدر کا راستہ روکنا پاکستان کے مفاد میں تھا۔ عوامالناس کو سول نافرمانی کی تلقین کرنا، بنکوں کے بجائے ہنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنا، بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے کے بجائے جلا دینا، دیوالیہ پن کی دہلیز پر کھڑے پاکستان کی امداد روکنے کے لئے آئی ۔ ایم ۔ ایف کو خط لکھنا ، اس کے صدر دفاتر کے باہر وطن مخالف مظاہرے کرانا، امریکی سائفر سے طفلِ خود معاملہ کی طرح کھیلنا، مسلح افواج کے اندر بغاوت کے لئے سازش کا جال بننا ، 250 سے زائد دفاعی تنصیبات پر حملے کرنا ، شہدا کے مجسمے توڑنا مکر وہ بھارتی سوچ کی مظہر تصویری ٹوئیٹس کے ذریعے سقوط ڈھاکہ کے المیے کو موجودہ حالات پر منطبق کرتے ہوئے آرمی چیف کو نشانہ بنانا، بیرونی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرنا، عالمی برادری کو پاکستان سے بدظن کرنا اور اپنے سوشل میڈیا کے ذریعے قبائے وطن کے بیچنے ادھیڑتے رہنا مفادِ پاکستان کے بنیادی تقاضے ہیں۔ اس پیمانے کے مطابق خان صاحب کو کون بتائے اور کیسے مطمئن کرے کہ پاکستان کا فائدہ کس بات میں ہے؟ اب تو پاکستان کے مفاد سے دل بستگی، اس انتہا کو جا پہنچی ہے کہ کھیل کے میدانوں سے عالمی سیاست کے ایوانوں تک، پاکستان کی ہر سبکی دل بستگان تحریک انصاف کے لئے تسکین قلب کا سامان بن جاتی اور کسی بھی گوشے سے آنے والی ہر اچھی خبر ان کے جگر میں تیر نیم کش کی طرح تراز و ہو جاتی ہے۔
تحریک انصاف کو مذاکرات کی پیش کش کرتے ہوئے ہمارے پیش نظر بھی ہمیشہ یہ الجھن رہی اور اب مبصرین بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی طرف سے کرائی گئی کسی بھی یقین دہانی کی ضمانت کون دے گا؟ حقیقت ثابتہ یہ ہے کہ خود عمران خان بھی اپنی افتاد طبع کی ضمانت نہیں دے سکتے ۔ ان کی مستقل مزاجی کے سبب درجنوں مذاکراتی مجلسیں نا کام ہو چکی ہیں۔ مئی 2022 میں حکومتی اتحاد نے سینیٹر اسحاق ڈار، سینیٹر اعظم نزیر تارڑ ، سید یوسف رضا گیلانی اور قمر زمان کائرہ پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی کہ پی۔ٹی۔آئی کو فوری انتخابات کے حوالے سے اعتماد میں لیا جائے ۔ شاہ محمود قریشی ، بیرسٹر علی ظفر اور فواد چودھری نے پی ٹی آئی کی نمائندگی کی۔ طے پا گیا کہ جون 2022 میں بجٹ کی منظوری کے ساتھ ہی اسمبلی توڑ دی جائے گی اور اگست میں انتخابات ہو جائیں گے۔ آرمی چیف جنرل باجوہ کے ذریعے خان صاحب کو بھی آگاہ کر دیا گیا۔ پی۔ٹی۔ آئی ٹیم کے ارکان شاداں و فرحاں نوید جانفزا لے کر خان صاحب تک پہنچے تو انہوں نے یہ مفاہمت مستر د کر دی۔ کہا کہ میں 25 مئی کو لشکر جرار لے کر اسلام آباد جا رہا ہوں اور طاقت کے زور پر انتخابات کی تاریخ لے کر اٹھوں گا۔ ”تینوں اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ۔ حکومتی کمیٹی نے پوچھا تو بولے ۔”وہ نہیں مانتا۔”
اب خان صاحب اپنے تمام پتے چل چکے ہیں۔ ان کی کوئی چال کارگر ثابت نہیں ہوئی ۔ جمعہ کے جمعہ ان کی احتجاجی کال نے، سٹریٹ پاور کا پول بھی کھول دیا ہے۔ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاجی ہجوم کی نفری ، نواحی مسجد میں نماز جمعہ کے شرکا کی تعداد سے بھی کہیں کم ہوتی ہے۔ مقدمات اپنی جگہ موجود ہیں۔ پارٹی میں یکجہتی نام کی کوئی شے نہیں ۔ 66 ارب روپے کرپشن کا القادر کیس فیصلہ کن موڑ تک آن پہنچا ہے۔ ڈسے یا نہ ڈسے، 9 مئی کاشیش ناگ بدستور پھن پھیلائے پھنکار رہا ہے۔ خان صاحب کے لئے ٹھنڈی ہوا کا کوئی دریچہ کھلتا دکھائی نہیں دیتا۔ بات اس وقت تک آگے نہیں بڑھے گی جب تک خان صاحب خلوص دل کے ساتھ اپنی جماعت کی ایک با اختیار کمیٹی تشکیل نہیں دیتے۔ ہر تد بیر الٹی پڑنے اور ہر حربہ ناکام ہو جانے کے بعد خان صاحب کی شاخ فکر پر پاکستان کے مفاد کی جوتازہ کو نپل پھوٹی ہے، وہ بالغ نظری اور سنجیدہ قدمی کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ نہیں تو بے اختیار قاصدوں ، ہر کاروں، نامہ بروں اور ایلیچیوں کوڑسوانہ کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri