کالم

التماس نجات

تحریر: عرفان صدیقی  '

 استاد داغ دہلوی نے کہا تھا
کس کا یقین کیجئے ،کس کا یقیں نہ کیجئے
لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ
کچھ یہی احوال تحریک انصاف کا ہے۔ اپنی اپنی بولیاں بولنے والے راہنماوں کی رنگا رنگ پھلجھڑیوں سے لوگ لطف اندوز تو ہو سکتے ہیں ، یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ  پی ٹی آئی کا اصل موقف کیا ہے؟ اب تو عمران خان اڈیالہ جیل میں ہیں لیکن جب وہ ب گالہ یا زمان پارک تھے، تو بھی یہی کیفیت تھی۔ آج کل بانی تحریک کے کچھ مقدمات کی سماعت اڈیالہ جیل میں لگی عدالتوں میں ہو رہی ہے۔ وکلا اکثر ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ اگرچہ ان سیاہ پوشوں میں سے شاید ہی کوئی روایتی معنوں میں وکیل رہ گیا ہو۔ سب کے سب سیاست کی طلسمی قبائیں پہن چکے ہیں۔ ان کی دلچسپیاں خان صاحب کے مقدمات سنجیدگی سے لڑنے اور ان کی بریت کا سامان کرنے کے بجائے ، سیاست میں اپنی جگہ بنانے اور ترقی درجات کی راہیں تلاش کرنے سے ہے۔ بیشتر اسمبلیوں میں آچکے ہیں اور اب اگلی اڑان کے لئے دوسروں کے پر قینچنے میں لگے ہیں۔
یہ وکلا ، کالے کوٹ پہنے، فائلیں اٹھائے اڈیالہ جاتے ، کسی  مقدمے میں بے دلی کے ساتھ حجت تمام کرتے اور پھر قانونیمشاورت کے نام پر خان صاحب کے ساتھ بیٹھ کر اپنے سیاسی اہداف کی پرورش ونمو میں لگ جاتے ہیں۔ باہر نکلتے ہیں تو پھاٹک پہ منتظر کیمروں کے سامنے، اپنے جذبات واحساسات کو خان صاحب کی ہدایات کا جامہ پہنا کر ارشادات عالیہ کا چمنستان کھ  دیتے ہیں۔ ایک خبر علی گوہر دیتے ہیں ، دوسری شیر افضل مروت ، تیسری لطیف کھوسہ اور چوتھی خان صاحب کی ہمشیرہ علیمہ خان۔ ان خبروں میں ” ہم ابھیخان صاحب سے مل کر آئے ہیں کے سوا کچھ بھی ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سر شام خان صاحب تک رسائی رکھنے والے کورٹ رپورٹرز ، اپنے چینلز کو پانچویں خبر دیتے ہیں جو عموماً سیاسی آلائشوں سے پاک اور درست ہوتی ہے۔ یہ تمام خبریں بھی جواں مرگ ہی ٹھہرتی ہیں۔ ایک آدھ دن بعد ایک نئی کہکشاں سج جاتی ہے۔
تین چار دن قبل ، نو آراستہ سینٹ میں مسلم لیگ (ن) پارلیمانی پارٹی کی نمائیندگی کرتے ہوئے میں نے تحریک انصاف کو پیش کش کی کہ آئیں ہم وسیع تر ملکی مفاد اور سیاسی استحکام کے لئے باہم مل بیٹھیں اور وطن عزیز کو بحرانوں کی دلدل سے نکالنے کے لئے ذمہ دارانہ کردار ادا کریں۔ میری اس پیشکش کے ساتھ ہی ایک دبستان ساکھل گیا۔ اسی شام جان اللہ کو دینی ہے“ کی شہرت رکھنے والے، پی ٹی آئی کے شعلہ بیاں راہنما، شہریار آفریدی نے ایک ٹی وی شو میں اعلان کیا ”ہم صرف چیف آف آرمی سٹاف  اور ڈی۔ جی۔ آئی ایس آئی سے بات کریں گے۔ عمران خان تو روز اول سے مذاکرات چاہتے ہیں۔ مگر دوسری طرف سے ریسپانس نہیں ا بنا کر۔ شو عمول گر اسی دورال سر من قام د اختلاف شبلی فراز زمیری تقریر کا حوالہ تو کرکٹ کا کاپٹ کوئی بال برابر کھولا اور کہا ”بانی پی ٹی آئی نے سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ پہلے مذاکرات کا ماحول پیدا ہو اور ٹی او آرز وضع کئے جائیں۔ ابھی اس سر گوشی نما اعلان کی گرہیں کھیل رہی تھیں کہ تحریک انصاف ک ترجمان ، روفحسن، جیو پر شہز اد ا قبال کے شو میں آئے اور پی ٹی آئی کی پالیسی نہایت دوٹوک حتمی اور واضح انداز میں بیان کر دی۔
روف حسن کا کہنا تھا عمران خان نے تین جماعتوں کے بارے میں کہہ دیا ہے کہ چونکہ انہوں نے ہمارا مینڈیٹ چرایا ہے، اس لئے ان سے کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی۔ یہ جماعتیں ہیں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو۔ ایم۔ حکومت کے لوگ صرف مہرے ہیں۔ نہ یہ قانونی طریقے سے حکومت میں آئے ہیں ، نہ یہ ہمیں کچھ دے سکتے ہیں۔ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لئے ایک کمیٹی بنائی تھی لیکن ادھر سے کوئی رد عمل نہیں آیا۔ ہم اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کسی ڈیل کے لئے نہیں ، انہیںصرف یہ سمجھانے کے لئے کر رہے ہیں کہ وہ سیاست میں دخل نہ دیں۔ انہیں ان کا آئینی رول یاد دلانا چاہتے ہیں۔
“پارٹی ترجمان کے اس واضح اعلان کے بعد، کم از کم فی الحال ، پی ٹی آئی نے حکومتی اتحاد سے بات چیت کے دروازے نہصرف بند بلکہ مقفل کر دیئے ہیں۔
پی۔ٹی۔آئی کی تاریخ بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ وہ سیاستدانوں سے ہاتھ ملانے یا قومی مسائل پر ( چاہے وہ کتنے ہی اہم ہوں ) بات چیت کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہی ہے۔ راولپنڈی یا اس کی ذیلی بار گاہوں سے رشتہ و تعلق میں وہ آغوش مادر کی سی نرمی اور گرمی محسوس کرتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کا غونا اٹھا تو بھی خان صاحب نے رحم طلب نگاہوں سے انہی بارگاہوں کی طرف دیکھا۔ حکومت چلی گئی ، صرف تین ووٹوں کی اکثریت سے شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے تو بہترین وقت تھا کہ پی۔ٹی۔ آئی اسمبلی میں رہتے ہوئے سیاسی داو پیچ آزماتی۔ خان صاحب نے یہ پسند نہ کیا۔ وہ جنرل باجوہ کو سازشی کہتے رہے۔ میر صادق اور میر جعفر قرار دیتے رہے۔ جانور پکارتے رہے۔ لیکن مدد طلب کرنے دو بار انہی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اگر چہ بات نہ بنی لیکن انہوں نے کسی سیاستدان کو منہ لگانا گوارا نہ کیا۔ روف حسن کے تازہ انکشاف کی روشنی میں اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان نے معزولی کے بعد جنرل باجوہ سے دو ملاقاتیں انہیں سیاست سے باز رکھنے کے لئے کی ہوں۔ 2014 کے چار ماہی دھرنوں کے دوران میں بھی ایک شام خان صاحب ہونٹوں پر وسیع و عریض مسکراہٹ سجائے جنرل راحیل شریف کے پاس گئے تھے۔ آج تک یہی سمجھا جا رہا تھا کہ وہ نواز شریف کو منصب سے ہٹانے کے لئے مدد طلب کرنے گئے تھے لیکن پارٹی ترجمان کے تازہ بیان سے لگتا ہے کہ وہ اس وقت بھی راحیل شریف کو بتانے گئے تھےکہ آپ صرف اپنے آئینی حلف تک محدود رہیں۔ نواز شریف سے ہم خود نبٹ لیں گے۔
مسئلہ مذاکرات نہیں ، صرف یہ ہے کہ پی ٹی آئی موجودہ گرداب سے نکلنے کی راہیں تلاش کر رہی ہے۔ اس کے نزدیک مذاکرات کے معنی پاکستان کے مفادات یا سیاسی استحکام نہیں ، عمران خان کے مقدمات کا خاتمہ اور رہائی ہے۔ اس کے نزدیک مذاکرات کے معنے پبلک کو معاشی بحران سے نکالنا نہیں ، کسی نہ کسی طور خان صاحب کو پھر مسند اقتدار پر بٹھانا ہے۔ اس کے نزدیک مذاکرات کے معنی دہشت گردی جیسے مرض پر قابو پانا نہیں ، 9 مئی کی غارت گری کو عفو و درگزر کا جامہ زیبا پہنانا ہے۔ پی۔ٹی۔ آئی بخوبی جانتی ہےکہ یہ خیرات اسے کسی گھر سے ملے گی۔ حکومت مذاکرات کو پاکستان ، اور پی ٹی آئی ، عمران کے حوالے سے دیکھتی ہے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے این آر او کو مذاکرات کے ریشمی لبادے میں لپیٹ کر اپنی حیات نو کے جتن کر رہی ہے۔ سو بجا طور پر اس کی جبین نیاز میں اسی چوکھٹ کے لئے ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں، جہاں سے اس کے زخموں کی چارہ گری ہو سکتیہے۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے اسے کیا لینا ؟ وہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس یہ سمجھانے نہیں جا رہی کہ اپنے آئینی تقاضوں کے مطابق ، سیاست سے دور رہو، یہ التجا کرنے جا رہی ہے کہ باجوہ اور فیض حمید کے عہد زریں کی طرح تم بھی لنگر لنگوٹ کس کر سیاست میں کو دو اور موجودہ حکمرانوں کو نواز شریف بناتے ہوئے ، ہمیں تخت طاوس پر بٹھا دو۔ کون سمجھائے کہ ابایسا نہیں ہو سکتا۔ 9 مئی حالات میں بہت بڑی جو ہری تبدیلی لا چکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے