ہمارے ہاں سانحہ ہو یا حادثہ، لاشوں کی گنتی کے بعد سب سے پہلے جو چیز زندہ ہوتی ہے وہ ہے مذمت اور یہ زندہ رہ کر بھی کچھ نہیں کرتی۔ پاکستان میں شاید سب سے وافر اور سب سے سستا ”سیلہ اگر کوئی ہے تو وہ ہے ”مذمت”۔ یہ وہ کرنسی ہے جس کیلئے نہ سٹیٹ بینک کی مشین درکار ہے نہ خزانے کی چابی۔ صرف دو جملے، ایک پریس ریلیز اور بس قومی ذمہ داری پوری! کوئی بم دھماکہ ہو، کوئی سانحہ یا کوئی ناانصافی، ہماری پہلی اور آخری پالیسی یہی ہوتی ہے: ”ہم مذمت کرتے ہیں۔یہ مذمت اجتماعی ضمیر کی وہ گولی ہے جو وقتی درد کو سن کر دیتی ہے مگر مرض کو کبھی نہیں چھیڑتی۔ حکمران بیان دیکر سبکدوش ہو جاتے ہیں، اپوزیشن اپنی سیاست چمکا لیتی ہے اور عوام کو لگتا ہے کہ واٹس ایپ اسٹیٹس پر ”ہم مذمت کرتے ہیں”لکھ دینے سے انصاف ادا ہوگیا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں: پشاور کے اسکول کی چیخیں، کوئٹہ کی مساجد کا لہو، لاہور کی درگاہوں کے صحن، کراچی کی سڑکیں—سب ایک ہی سوال کرتے ہیں: مذمت کے بعد کیا؟ مگر ہر بار جواب وہی خاموشی رہا۔ چند دن میڈیا کی اسکرینیں سرخ رہتی ہیں، سیاست دان افسردہ چہروں کے ساتھ کیمروں میں جھلکتے ہیں اور پھر زندگی معمول پر آ جاتی ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ آج بھی یہی حال ہے۔ کبھی بارڈر پر گولیاں چلتی ہیں تو ہم مذمت کے میزائل چھوڑ دیتے ہیں، کبھی مہنگائی عوام کا دم گھونٹتی ہے تو بیانات کے بم برس جاتے ہیں۔بریکنگ نیوز کے بینرز جگمگاتے ہیں: ”وزیراعظم کی مذمت، اپوزیشن کی مذمت، عالمی برادری کی مذمت۔گویا شہیدوں پر کفن نہیں، بیانات کے ہار چڑھائے جا رہے ہوں۔مذمت کی بھی اقسام ہیں۔ زبانی مذمت، جس میں زبان تھک جاتی ہے مگر ضمیر نہیں۔ تحریری مذمت، جو کاغذ پر بے جان الفاظ چھوڑ جاتی ہے۔ مشروط مذمت، جس کے بعد آدھی تقریر سیاسی مخالفین پر برسنے میں ختم ہو جاتی ہے۔ اور فوٹوگرافک مذمت، جس میں وزراء جائے حادثہ پر ہاتھ باندھ کر تصویریں کھنچواتے ہیں، جیسے تصویر ہی انصاف کا اعلان ہو۔افسوس یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے ڈھول کی مانند ہے جس کا شور کان پھاڑ دیتا ہے مگر اندر سے بالکل خالی ہے۔ اگر مذمت ہی سے مسائل حل ہوتے تو دہشتگردی، کرپشن اور لاقانونیت کب کا قصہ پارینہ بن چکی ہوتیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جتنی مذمت بڑھی ہے، اتنی ہی سانحات بھی بڑھ گئی ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم نے مذمت کو انجامِ کار کیوں سمجھ لیا ہے؟ یہ تو محض آغاز ہونا چاہیے، انجام نہیں۔ لیکن ہم مذمت کے شور میں سکون ڈھونڈتے ہیں اور مجرم قہقہے لگا کر اگلے سانحے کی تیاری کرتے ہیں۔وقت کا تقاضا ہے کہ مذمت کے ڈھول بجانے کے بجائے عمل کی تلوار چلائی جائے۔ ورنہ تاریخ یہی لکھے گی: ”یہ قوم ہر سانحے کے بعد مذمت کرتی رہی، اور سانحے بڑھتے رہے یہاں تک کہ مذمت کے شور میں انصاف ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا۔” اور شاید یہ قوم اپنے آخری دن بھی صرف مذمت کر کے قبر پر جا بیٹھے، جبکہ قاتل فاتح کی طرح اگلے سانحے کی تیاری کرتا رہے۔