کالم

مردان میں اے این پی کا پاور شو

پوچھا جارہاہے کہ جلسہ کتنا کامیاب رہااورشرکا کتنے تھے اشارے کئے جارہے ہیں کہ طاقت کا مظاہرہ کرناتھا تو اے این پی نے بنک روڈ کا انتخاب کیوں کیا یہ اوران جیسے کئی اور سوالات ذہنوں اورزبانو ں پر ہیں جہاں تک جلسے کی بات ہے تو یقینایہ ایک کامیاب پاورشوتھا نہ صرف کامیاب بلکہ جاندار بھی تھامخالف سیاسی جماعتیں وطیرہ حیرت میں ہیں تواے این پی کو خود بھی 31جنوری کو اس قدر سرخ سیلاب امڈ آنے کا یقین نہیں تھا جہاں تک جلسے کی تعداد کا سوال ہے تو بعض حلقوں کا خیال ہے کہ جلسے میں 8سے دس ہزار کے قریب لوگ شریک تھے تو بعض حلقے شرکا کی تعداد کے حوالے سے پندرہ ہزار تک کے دعویدار ہیں تاہم اس قسم کے عوامی جلسوں کے ناپ تول کےلئے کسی کے پاس پیمانہ نہیںہوتا،اندازے ہی لگائے جاتے ہیں ۔ بہرحال تعداد جتنی بھی تھی یہ بات ماننی پڑے گی کہ ماضی قریب میں اس قدر جاندار جلسہ دیکھنے کو نہیں ملا اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ اے این پی نے بارہ سالہ اقتدار سے محرومی کے باوجود ثابت کیا کہ سرخ جھنڈے میں ابھی دم ہے تو کارکنوں میں جوش اورجذبہ بدستور قائم ہے باچاخان اوررہبر تحریک خان عبدالولی خان کی برسی مردان کی قیادت کے لئے ایک آزمائش تھی دوسرا چیلنج یہ تھاکہ پہلی بار پارٹی کے مرکزی صدر ایمل ولی خان خطاب کرنےوالے تھے یہ بھی امتحان تھا کہ سابق وزیراعلیٰ امیر حیدرخان ہوتی کے شہرمیں ان ماموں زاد (ایمل خان) کارکنوں کے درمیان ہونگے ان حالات میں ضلعی قیادت آزمائش میں گری تھی لیکن کامیاب حکمت عملی منظم ٹیم ورک اور شب و روز رابطوں نے ان کےلئے یہ مشکل آسان بنایاضلعی قیادت نے مردان کے تمام تحصیلوں،صوبائی حلقوں ، یونین کونسلوں اور این سی وی سیز میں دن رات رابطے کئے اور کارکنوں کا موبلائز کیایوں جلسے میں حاضری اور جان ڈالنے کی کوششیں کامیابی سے ہمکنارہوئیں جلسے کی ایک اہم بات یہ تھی کہ اس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک تھی اور جو جماعتیں یہ دعوے کررہی تھی کہ نوجوان صرف ان کا اثاثہ ہیں ان کےلئے یہ بھرپور جواب تھا جلسے میں شرکا کی آخری وقت تک خوب دلچسپی رہی ایمل خان کی تقریر کبھی سخت تو کبھی نرم،ضرب المثال اوراشعاربھی ان کے تقریر کا حصہ تھیں تو ماضی اور مستقبل سمیت پختون خطے کی اہمیت پر بھی ان کی نظررہی امیرحیدرخان ہوتی نے مختصر تقریر میں مردان کی جامعات اوررنگ روڈ اراضیات کی فروخت کے حوالے سے حکومت کو سخت پیغام دیا ایمل ولی خان کے کم سن بیٹے اتل ولی اور امیرحیدرخان ہوتی کے نوجوان بیٹے بیرسٹر اکبر خان ہوتی بھی جلسے کا حصہ تھے جو ہر سو جاذب نظر رہے ایمل خان نے اپنے چارنسلوں اوران کی قربانیوں کا ذکر کیا تو سٹیج پر بیٹھے پانچویں نسل کے حوالے سے جن پیراو¿ں میں گفتگو کی وہ اہمیت سے خالی نہیں تھی سیاست پر نظررکھنے والے حلقے انہیں خاصی وقعت دے رہے ہیں دونوں لیڈروں کے بیٹوں کی سیاسی سٹیج پر موجودگی سے یہ اندازاے لگائے جارہے ہیں کہ دونوں کزنز ایمل ولی خان اور امیرحیدرخان ہوتی مستقبل میں اپنے بچوں کو سیاست کے پرخار وادی میں اتارنے میں سنجیدہ نظر آرہے ہیں حرف آخر کے طورپر عرض ہے کہ اے این پی کاپاورشو تا دیر سیاسی حلقوں میں زیر بحث رہے گا اور مستقبل کی سیاست پراس شوکے دورس اثرات پڑیں گے خصوصا مردان کی سیاست پر اس کی پرچھائیاں قائم رہیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے