کالم

مریم نواز کی واپسی اور بدلتی سیاسی صورتحال

مریم نوازکی پاکستان واپسی نے سیاست میں ایک ہلچل مچا دی ہے۔مسلم لیگ کی سہمی اور ٹھٹھری ہوئی زندگی میں انہوں نے ایک توانائی پھونک دی ہے۔لیگی کارکنان میں مریم نواز کے آنے سے ایک جوش وخروش اور ولولہ پید ا ہو چکا ہے کہ اب عمران خان کو تنہا میدان نہیں ملے گا۔مریم نواز کی واپسی کے موقع پر استقبال کے لیے مسلم لیگ ن کے کارکنان صبح سے ہی قافلوں کی شکل میں لاہور کی سڑکوں پر موجود تھے۔لاہور ایئرپورٹ سے مریم نواز کو ریلی کی صورت میں جاتی امرا لایا گا۔راستے میں عوام کا ہجوم تھا اور جگہ جگہ ہزاروں لیگی کارکن ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالتے رہے،منوں پھول کی پتیاں ان پر نچھاور کی گئیں۔جب وہ دبئی سے لاہور کے ہوائی اڈے پر اتریں تو پارٹی کی سینئر قیادت ان کے استقبال کے لئے موجود تھی۔خواجہ آصف،خواجہ سعد رفیق،خواجہ سلمان رفیق،احسن اقبال ،کیپٹن صفدر،ایاز صادق اور دیگر رہنماو¿ں نے ان کا پر جوش استقبال کیا اور خوش آمدید کہا۔جنید صفدر ماں کے گلے ملے اور ماں نے اپنے بیٹے کا ماتھا چوما۔مریم نواز کی آمد پر عجب سماں تھا کہ لوگوں کے چہرے خوشی سے کھلے ہوئے تھے۔جوشیلے جوان نعرے لگا کر لوگوں کا خون گرما رہے تھے۔مریم نواز کا حالیہ استقبال اور ہزاروں لوگوں کا ان کو ویلکم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اب سیاسی میدان اور محاذ گرم رہے گا اور مریم نواز جرات و جانبازی اورگھن گھرج سے عمران خان کو للکاریں گی۔ ایک با اعتماد ذریعے نے اس نمائندے کو بتایا ہے کہ مسلم لیگ میں یہ سوچ پروان چڑھ چکی ہے کہ بس بہت ہو چکا، اب اور نہیں۔ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ پارٹی میں کون کہاں کھڑا ہے؟ اقتدار کے لیے سیاست ہے یا پھر صرف مزاحمت؟ شہباز شریف کے مفاہمت کے بیانیے اور نواز شریف کے مزاحمت کے بیانیہ میں اب ایک لکیر کھینچ دی جائے گی اور مریم نواز کھل کر سیاسی مخالفین کو انہیں کی زبان میں جواب دیں گی۔کہا جاتا ہے شریف خاندان میں بیانیے کے پس منظر میں جانشینی کی جنگ بھی حتمی مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔بھلا نواز شریف کا جانشین مریم نواز سے بہتر کون ہو سکتا ہے۔ ہر گز ہرگز کوئی مبالغہ نہیں کہ مریم نواز سیاست میں ایک حقیقت بن چکی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف کے سیاسی بیانیے کی جانشین بھی وہی ہیں ۔عام انتخابات میں شعلہ بیاں تقریروں سے وہ پارٹی کی انتخابی مہم چلائیں گی ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مریم نواز کی شعلہ بیانی اور قادرالکلامی انتخابی معرکوں کو کامیابیوں میں بھی بدل سکتی ہے یا نہیں۔اس کا جواب تو خیر آنے والا وقت ہی دے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ عمران خان سے برابر کی ٹکر لیں گی اور انہیں انتہائی ٹف ٹائم دیں گی۔ مسلم لیگ اور اس کے سیاسی معاملات کو قریب سے جاننے والے خوب جانتے ہیں کہ شہباز شریف کی موجودگی میں بھی پارٹی کی ان دیکھی کمان بہرحال مریم نواز کے ہاتھوں میں ہی رہی ہے۔ مریم نواز کی اپنی ایک خاص حیثیت و اہمیت ہے اور وہ پارٹی کا عوامی چہرہ ہیں۔پھر یہ بھی کہ عمران خان کو انہی کی کھردری اور سخت زبان میں اگر کوئی جواب دے سکتا ہے تو وہ دو ہی لیڈر ہیں۔ایک مریم نواز اور دوسرا بلاول بھٹو۔یہ دونوں جب بولتے ہیں تو کمال بولتے ہیں اور شیر کی طرح عمران خان پر جھپٹتے ہیں۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ آج کی نو جوان نسل ان دونوں کو ہی پسند کرتی ہے۔یہ بات تو سبھی مانتے ہیں کہ خوش لباسی بھی مریم نواز کا خاصہ ہے اور ان کی شخصیت کو دو چند بھی کرتی ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا پر بھی مریم نوازکا چرچا اور دبدبہ ہے۔پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے مقابل پیپلز پارٹی کا سوشل میڈیا تو کچھ بھی نہیں لیکن مریم نواز کے سوشل میڈیا میں کافی جان ہے۔اس محاذ پر اگر کوئی عمران خان کا مقابلہ کرتا ہے تو وہ صرف اور صرف مریم نواز ہی ہیں۔ باخبر مبصر کہتے ہیں کہ اب عمران خان کو یک طرفہ میدان نہیں ملے گا،اب مریم نواز ان کے مقابل ہوں گی اور وہ ٹھیک ٹھیک چوٹ لگائیں گی۔شاید اسی لئے عمران خان مریم نواز کی واپسی سے خوفزدہ بھی ہیں۔کپتان کو بہت پتہ ہے کہ نوجوانوں کو اگر کسی سیاسی لیڈر کی شخصیت میں کشش محسوس ہوتی ہے تو وہ کوئی اور نہیں مریم نواز ہی ہیں۔مریم نوازکی واپسی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایک جانب وفاق میں اتحادی حکومت کو معاشی بحران کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے تو دوسری جانب پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد نئے انتخابات کا منظر نامہ پیدا ہو رہا ہے۔ایسی صورتحال میں مریم نواز کی اساطیری اور طلسماتی شخصیت ہی پارٹی کو پنجاب واپس دلا سکتی ہے۔ویسے بھی عمران خان کے جارحانہ رویے کا مقابلہ دھیمے مزاج کے سیاستدانوں کے بس کی بات نہیں،ا س کے لئے بھی ایک رعنا اور توانا خون چاہئے جو سیاسی مخالفوں کو انہی کی زبان میں دوٹوک اور واضح جواب دے۔ اب سیاست اور سیاسی موسم بدل رہا ہے، اس کے تقاضے نئے ہیں تو طور طریقے بھی نئے ہونے چاہئے۔نواز شریف کی واپسی کےلئے بھی پارٹی کو متحرک اور فعال بنانا ضروری ہو چکا ہے۔ مسلم لیگ کی چیف آرگنائزر پارٹی کی تنظیم نو کریں گی اور تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کیا جائے گا۔مریم نواز نے کہا بھی ہے کہ وہ نوجوانوں کو مسلم لیگ ن میں لانا چاہتی ہیں۔گویا مریم نواز کی واپسی پر سیاست اور سیاسی صورتحال بدل رہی ہے اور عمران خان کا مقابلہ اب ایک مضبوط اور توانا حریف سے ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri