کالم

مسلم امہ زبوں حالی کا شکار کےوں۔۔۔؟

چند دن قبل سےالکوٹ مےں اپنے آبائی گاﺅں چٹی شےخاں مےں اےک عزےز کی صف فاتحہ خوانی پر بےٹھے تھے ۔حالات حاضرہ پر گفتگو ہو رہی تھی ۔شرکائے محفل مےں سے ہر کوئی اپنی دانست و فہم کے لحاظ سے شرےک اظہار تھا ۔ زمانہ حال مےں مسلم امہ کی پستی و زبوں حالی پر بات چےت کا سلسلہ شروع ہوا ۔اکثرےتی رائے ےہی تھی کہ مسلمانوں کے موجودہ تنزل کا بڑا سبب ان مےں اےمان کی کمی ہے اگر اےمان محکم و پختہ ہو تو کوئی وجہ نہےں کہ آج مسلمان دنےا مےں ےو ں حسرت و ےاس اور بے بسی کی تصوےر بنتے جو کہ ان کا مقدر بنا دی گئی ہے ۔راقم سے بھی اس محفل غم مےں اظہار خےال کرنے کو کہا گےا ۔ راقم نے اپنی رائے دےتے ہوئے کہا کہ مےرے عزےزو اس وقت مسلمانوں کی کمی اےمان مےں نہےں بلکہ سامان کی ہے ،اتحادو اخوت کی ہے ،قےادت کی ہے ،جدےد تعلےم و ٹےکنالوجی کی ہے ،جمہوری روےوں اور عدل و انصاف کی ہے۔اگر مسلمانوں کا اےمان متزلزل ہوتا تو افغانستان مےں پوری دنےا نے مہاتمابدھ کے مجسمے کو کروڑوں ڈالر کے عوض خرےدنے کی پےشکش کی تھی لےکن صاحبان اےمان نے ان پےشکشوں کو ٹھکرا کر بت فروش نہےں بلکہ بت شکن کہلانا پسند کےا بعض اوقات کچھ لوگوں کی نادانےوں کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑتی ہے ۔9|11پوری امت مسلمہ پربجلی بن کر گرا ۔لاکھوں مسلمان بے جرم و خطا اس خونی سےلاب مےں بے درےغ بہا دےے گئے ۔ساری دنےا القاعدہ سے خوف زدہ ہو گئی جو قومےں بھی حالات و واقعات پر گہری نظر نہےں رکھتےں جذباتی اور نادانی کے فےصلے کرتی ہےں اپنی صفوں مےں اتحاد کی بجائے دہشت و وحشت کو مسکن بناتی ہےں تو نتےجہ ذلت ،ندامت اور پرےشانی ہی ٹھہرتا ہے ۔فطرت اپنے قوانےن کسی خاص قوم کےلئے تبدےل نہےں کےا کرتی اس کے ضابطے اور اصول ہر ملک و قوم کےلئے ےکساں ہوتے ہےں جو افراد ےا اقوام بدلتے ہوئے حالات کے تےور پڑھنے اور ان سے مطابقت اختےار کرنے کی صلاحےت سے محروم ہو کر غلط فےصلے کرتے ہےں اس غلطی کا خمےازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے ہمےں اگر ہر نئے دن کے ساتھ اےک نئے المےے سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے تو جہاں غےر کی جفا کار فرما ہے وہاں ہماری نادانےوں کا بھی بڑا حصہ ہے ۔گزشتہ برسوں کی تارےخ پر نظر ڈالےں تو ہمےں ندامت ،دکھ اور تکلےف کا احساس ضرور ہو گا جب اپنے ہی بھائی بندوں کا خون ہم نے خود اپنے ہی ہاتھوں بہانے سے درےغ نہےں کےا ۔مسلم امہ کو بے بسی سے رہائی اور بد نصےبےوں سے نجات دلانے کےلئے کسی نے بھی تعاون کا ہاتھ نہےں بڑھاےا۔مسلم ممالک کے دہشت و وحشت اور جنگ کے مناظر آج بھی اس حقےقت پر شاہد ہےں۔ہم اپنی گرم محفلوں مےں صرف عالمی صورت حال پر بحث و تکرار کرتے ہوئے اونچی آواز مےں امرےکہ کو گالی دے کر اپنی حرےت پسندی پر خوش ہونے کا ہی سامان کرتے رہے امرےکہ کو فتح کرنے کی باتےں کرتے ہوئے اپنی حکومتوں کو اکساتے رہے کہ وہ امرےکہ کے مقابلے مےں مےدان کار زار مےں نکل آئے ۔مسلم امہ کی موجودہ زبوں حالی کا جائزہ لےا جائے تو معلوم ہو گا کہ جنگ عظےم اول اور دوم کے بعد برطانوی سلطنت کے خاتمے پر ان مسلم ممالک مےں بادشاہت قائم ہوئی ےا فوجی آمرےت ،جمہورےت کا راستہ مسدود کر دےا گےا برطانوی استعمار نے ان ممالک کا خزانہ چند خاندانوں کی عےش و عشرت کےلئے وقف کر دےا وہاں سے اقتدار پر قابض شاہی خاندان امےر سے امےر تر ہو گئے اور ان کی زندگی عےش و عشرت کی دلدادہ ۔ان ممالک مےں تمام پراجےکٹس پر کام کرنے والی کمپنےاں مغرب کی تھےں ان ممالک نے دولت کے بل بوتے پر اپنا دفاعی انحصار بھی مغرب پر کےا جن کے باعث ان کی انفرادی ترقی کی خواہش مفلوج اور تمام صلاحےتےں زنگ آلود ہو گئےں اور خود انحصاری کے جذبے کا مکمل خاتمہ ہو کر رہ گےا ۔اسلامی ممالک مےں دولت کی فراونی اور قدرتی وسائل و ذرائع ہونے کے باوجود سائنس اور ٹےکنالوجی کی پسماندگی کے سبب مغربی ممالک خصوصاً امرےکہ کی ذےلی رےاستےں بن چکی ہےں ےہ بھی اےک عالمگےر سچائی ہے کہ جن ممالک مےں جمہورےت اور عدل و انصاف قائم نہ ہو وہ اقوام مظلومےت سے نجات حاصل کرنے سے ےکسر عاجز رہتی ہےں ۔افغانستان پر حملہ ہوا ،عراق کو نشانہ ستم بناےا گےا کےا دنےا مےں اس وقت 70مسلمان ممالک ان حملوں کو روکنے کی سکت رکھتے ہےںےا اس کےلئے انہوں نے ذرا بھی کوشش کی ،بالکل نہےں ۔جب تک ہم حقےقت پسندی اور عملےت پسندی کے مطابق عمل نہےں کرےں گے ےہی ذلت ہمارا مقدر ہو گی۔مسلمانوں کی حالت زار کا اس سے بخوبی اندازہ لگاےا جا سکتا ہے کہ ان ممالک مےں اےک بھی مسلمان ملک اقوام متحدہ مےں وےٹو پاور نہےں ہے ۔ےہ ہماری بدقسمتی ہے کہ جو دےن باربار تفکر اور تسخےر کائنات کی تاکےد کرتا ہے وہاں سائنس اور ٹےکنالوجی کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔ہم صرف اعلیٰ ٹےکنالوجی کے لفظ سے آشنائی رکھتے ہےں لےکن ہمارے ہاں بنےادی سائنس مےں رےسرچ نام کی شے کا وجود ہی نہےں ۔ہمےں ٹےکنالوجی کے شعبے مےں جہد مسلسل کی شکل مےں کئی سال تک اجتماعی بنےادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تب ہی ہم اکےسوےں صدی کی ٹےکنالوجی کو فروغ دےنے کے قابل ہو سکتے ہےں ۔آج کی دنےا مےں اقوام سائنس اور ٹےکنالوجی پر دسترس حاصل کئے بغےر نہ تو اپنی آزادی کا تحفظ کر سکتی ہےں اور نہ ہی حقےقی معنوں مےں ترقی ۔ آج جنوب و مغرب کے درمےان وسےع خلےج و فاصلہ ٹےکنالوجی کو بروئے کار لانے پر ہی ہے ۔ ٹےکنالوجی کو بروئے کار لانے والے بالاتر و بالا دست ہےں جبکہ دوسرے بے وقعت ،غرےب اور مفلوک الحال ۔اےک مسلم ہمدرد و مخلص راہنما مہا تےر محمد نے مسلم امہ کو جو مشورے دےے تھے ان پر عملدرآمد سے ہی مسلم امہ باعث عزت و وقار اقوم مےں شامل ہونے کے قابل ہو سکتی ہے ۔ مسلم امہ نے جدےد علوم سے اپنے کو علےحدہ رکھ کر اپنے کو محکوم اقوام مےں شامل کر لےا ہے ۔ہماری اصل کمزوری جس کی نشاندہی مہا تےر محمد نے بھی کی کہ ہم معاشی اور عسکری لحاظ سے کمزور ہےں دوسرے اگر کوئی قوم صحےح کردار واخلاق کی حامل اور فہم و فراست رکھتی ہے تو تب ہی وہ دنےا پر حکومت کرتی ہے ۔معاشی اور عسکری لحاظ سے کمزور قومےں بلآخر زےر ہو جاتی ہےں ۔ےہ حقےقت اب کسی سے پوشےدہ نہےں رہی کہ پہلی جنگ عظےم مےں استعمال کئے جانے والے آلات حرب اور عراق و افغانستان مےں استعمال کئے جانے والے اسلحہ مےں بنےادی فرق تھا ۔جدےد ترےن ہتھےاروں نے ےہ سوال سامنے لا کھڑا کےا ہے کہ کسی فوج کی قوت ضرب کا انحصار افرادی قوت پر ہے ےا آلات حرب کی نوعےت پر ۔اس مےں شک نہےں کہ دوسری جنگ عظےم تک افرادی قوت کا پلہ بھاری رہا مگر بعد ازاں ہونے والی سائنسی اور تکنےکی ترقی نے جدےد ترےن اسلحہ کو بنےادی اہمےت دلا دی ہے ۔اب ےہ اصول مسلمہ ہو چکا ہے کہ بہتر حربی اہلےت عددی فوقےت کا موثر توڑ ہے ۔افغانستان کے بعد عراق تباہ ہو چکا ہے اب دےگر مسلمان ممالک پر دباﺅ پڑرہا ہے ضرورت ہے مہاتےر محمد کے صائب مشوروں پر عمل درآمد کی ۔انہوں نے کئی بار ان حقےقتوں سے پردہ اٹھاےا کہ اس وقت دنےا مےں مسلم ممالک کی آبادی اےک ارب سے بھی زائد ہے اسے سلامتی کونسل کا رکن بناےا جانا چاہےے،اسے وےٹو پاور بھی حاصل ہو ،اس کا مشترکہ فنڈ ہو ،مشترکہ امن فوج ہو ،مشترکہ منڈی ہو ،صنعتی و ماحولےاتی منصوبوں کےلئے اےک دوسرے کی فنی امداد کی جائے ،باہمی تجارت کو فروغ دےا جائے ،ان کا مےڈےا سےل ہو ،ےہ صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب مسلم ممالک مےں باہمی محبت اور اتحاد کی فضا قائم کرنے کی سعی کی جائے ۔جب اجتماعی خطرات کا سامنا ہو تو مقابلہ صرف اجتماعی طور پر کےا جا سکتا ہے اور وہی قومےں بحرانوں پر قابو پانے مےں کامےاب ہوتی ہےں جن کے ارباب اختےار اپنے تمام اختلافات بھلا کر اےک پلےٹ فارم پر جمع ہوں اور مستقبل کےلئے لائحہ عمل مرتب کر کے اس پر عمل کو ےقےنی بنائےں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے