کالم

مسلم کش فسادات میں بھارتی پولیس ملوث

بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر بہرائچ میں ہونے والے حالیہ مسلم کش فسادات میں بھارتی پولیس کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ دو ہندو نوجوانوں صبوری مشرا اور پریم مشرا نے تشدد میں حصہ لینے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے انہیں مسلمانوں پر حملہ کرنے اور ان کی املاک کو تباہ کرنے کے لیے دو گھنٹے کا وقت دیا۔یہ فسادات14اکتوبر کو پھوٹ پڑے تھے۔ ہندی روزنامہ ڈینک بھاشکر نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ سینکڑوں مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر حملہ کیا گیا۔ فسادیوں نے مسلمانوں کی املاک نذر آتش کیں اور گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا، تقریباً 30 موٹر سائیکلیں جلا دی گئیں۔ آل انڈیامسلم مجلس مشاورت میں بہرائچ میں جاری مسلمانوں کےخلاف پرتشددواقعات پرشدید تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ فرقہ وارانہ نفرت اور تشدد کی سیاست سے بھارت کے مسلمانوں کوشدید خطرات لاحق ہیں۔ یوگی ادتیہ ناتھ بہرائچ میں تشدد کے براہ راست ذمہ دار ہیں،بی جے پی حکومت فساد میں ملوث ہندو انتہا پسندوں کی بے جاحمایت کر رہی ہے،ہندو انتہا پسند جتھے نے گزشتہ روز ایک مسلم شخص کا شوروم بھی جلا ڈالا۔حال ہی میں ہندوانتہا پسندوں کی جانب سے بھارتی ریاست اترپردیش میں مسلمانوں کے خلاف ایک نئی سازش کی گئی۔13 اکتوبر کو درگاپوجاکے دوران ایک ہندوکی ہلاکت کابہانہ بناکر ہندو انتہاپسندوں کی مسلم دشمنی بے نقاب ہوئی،اس پرتشدد واقع کے بعدبہرائچ کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی دکانیں لوٹنے اورجلانے کا سلسلہ نہ تھم سکا۔ جھوٹے اورمن گھڑت پروپیگنڈے کے تحت مسلمانوں کونشانہ بنایاجارہا ہے،بھارتی تجزیہ کارکا کہنا ہے کہ بدلے کی آگ میں انتہا پسند ہندو مسلمانوں کے خلاف کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔فسادات کے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی ایم ایل اےشلبھ منی ترپاٹھی نے واقعے کی کوریج کرنے والے مسلم صحافیوں پر جھوٹے الزامات لگانا شروع کر دیئے،انتہا پسند اورمشتعل ہندو فسادی جتھے نے مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کی توڑ پھوڑ بھی کی۔ان کشیدہ حالات پراتر پردیش انتظامیہ اور پولیس مکمل طور پر خاموش ہے جبکہ علاقے کے مسلمانوں کو ڈرایا اور دھمکایا جا رہا ہے۔بھارت میں مسلمانوں کے خلاف غیر منصفانہ پالیسیاں اور ناروا سلوک مودی کی فسطائیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔گزشتہ برس شدت پسند ہندوو¿ں نے ریاست اتراکھنڈ سے اقلیتی مسلمانوں کی ’جبری بے دخلی‘ کے لیے ایک مہم چلائی تھی۔ وہاں مسلمانوں کے خلاف زیادہ تر نفرت آمیز رویوں کی وجہ ’لو جہاد‘ کی سازشی تھیوری تھی۔محمد سلیم ان کئی مسلمانوں میں شامل تھے جنہیں پچھلے سال راتوں رات بھارتی شہر پرولا میں اپنا گھر چھوڑنا پڑا تھا۔ یہ شہر اتراکھنڈ کی ریاست میں واقع ہے، جہاں سے مسلمانوں کی اقلیت کو جانے پر مجبور کرنے کے لیے گزشتہ برس مئی میں شدت پسند ہندوو¿ں نے ایک مہم کا آغاز کیا تھا۔اتراکھنڈ کے ریاستی دارالحکومت دہرادون میں رہنے والے 38 سالہ راکیش تومر ان افراد میں شامل تھے جنہوں نے مسلمانوں کی جبری بے دخلی کا جشن منایا تھا۔ راکیش ایک سخت گیر ہندو قوم پرست ہیں، جو مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز جملوں کا استعمال کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے اس اقلیت سے انہیں خطرہ ہے۔اتراکھنڈ ہندوو¿ں کی مقدس سرزمین ہے۔ ہم کسی بھی حالات میں اسے اسلامی ریاست نہیں بننے دیں گے، چاہے ایسا کرنے کے لیے ہمیں اپنی جان کی قربانی ہی کیوں نہ دینا پڑے۔ان کا یہ بھی خیال ہے کہ مسلمان ہندوو¿ں کے کاروبار کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول، ”ہم نے اب یہ اقدام کیا ہے کہ ہندو دکاندار اپنی دکانوں کے باہر اپنے نام کی تختی لگا رہے ہیں تاکہ ہندو صرف ان ہی کی دکانوں سے خریداری کریں۔ اس معاشی بائیکاٹ کے ذریعے ہم مسلمانوں کی جانب سے شروع کیے گئے ‘ٹریڈ جہاد‘ کو روک سکیں گے۔“ 2011ءکی مردم شماری کے مطابق اتراکھنڈ کی کل آبادی 10 ملین نفوس پر مشتمل ہے، جن میں سے صرف 13 فیصد مسلمان ہیں۔ وہاں پچھلے سال مسلمانوں کے خلاف زیادہ تر نفرت آمیز رویوں کی وجہ ”لو جہاد“ کی سازشی تھیوری تھی، جس کے تحت یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بھارت میں مسلمان مرد ہندو خواتین کو ورغلا کر ان سے اسلام قبول کرواتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس تھیوری کا پرچار بڑے پیمانے پر کیا گیا اور ایسا کرنے والوں میں سے کئی افراد راکیش تومر کی طرح بھارت میں برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حامی ہیں۔تومر سینکڑوں مردوں پر مشتمل ایک ایسے گروپ کی قیادت بھی کر رہے ہیں جو ان کے بقول اسلام مخالف ”آرمی“ ہے۔ تومر کا ماننا ہے کہ ان کے مسلم پڑوسی ہندو خواتین، ہندوو¿ں کی زمینیں اور کاروبار ہتھیانا چاہتے ہیں، تاہم اس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔دوسری جانب بی جے پی کے قوم پرست بیانیے کے باعث بھی بھارت میں رہنے والے 220 ملین سے زائد مسلمان اب اپنے مستقبل کے حوالے سے خوفزدہ ہیں۔پچھلے سال پرولا میں مسلمانوں پر حملے بھی کیے گئے تھے، جس کے بعد ان کی دکانوں اور گھروں کے باہر ایسے پوسٹرز چسپاں کر دیے گئے تھے، جن میں ان سے نقل مکانی کر جانے کا کہا گیا تھا۔ شدت پسندوں کا مطالبہ تھا کہ پرولا میں مقیم مسلمانوں کو ”جبراً بے دخل کر دیا جائے۔“

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے