کالم

مشرق کی ابھرتی طاقتیں اور پاکستان

دنیا کے حالات تیزی سے پلٹا کھا رہے ہیںاور نئے توازن کے ساتھ دنیا آگے کی جانب بڑھ رہی ہے، جہاں مغرب کی بالادستی اب واحد مرکز نہیں رہی۔ برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے پلیٹ فارمز اس حقیقت کے مظہر ہیں کہ طاقت کے محور مشرق کی طرف منتقل ہو رہے ہیں، ایسے میں پاکستان کے لیے امکانات اور ذمہ داریاں دونوں بڑھ گئی ہیں۔ مغرب کی کمزور ہوتی گرفت اور غیر مغربی دنیا کے اعتماد نے عالمی منظرنامے کو ایک نئے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔تاریخی مواقع اکثر عالمی سفارتکاری کو علامتی تماشے میں بدل دیتے ہیں۔ حالیہ دنوں تیانجن میں ہونے والا شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا اجلاس بھی اسی نوعیت کا تھا۔ یہ کانفرنس چین کی دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کی 80 ویں سالگرہ سے قبل منعقد ہوئی اور بیجنگ نے اس کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ عالمی سیاست کا نقشہ تیزی سے بدل رہا ہے۔
یہ اجلاس محض دستاویزات پر دستخط تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک نئے معیار کی نشاندہی کرتا ہے۔ عالمی تعلقات میں بعض اوقات یہ زیادہ اہم ہوتا ہے کہ کون اکٹھا ہوا، نہ کہ صرف کیا طے پایا۔ یہی وجہ ہے کہ تیانجن کی بیٹھک کو گزشتہ برس قازان میں ہونے والی برکس کانفرنس کے ہم پلہ قرار دیا جا رہا ہے۔دنیا طویل عرصے تک مغربی طاقتوں کی موجودگی اور منظوری پر چلتی رہی۔ جی 7 اور جی 20 جیسے فورمز مغربی اثر کے زیرِ سایہ تھے۔ لیکن آج تصویر بدل چکی ہے۔ برکس اور ایس سی او جیسے پلیٹ فارمز، جنہیں کبھی مغرب میں متبادل کلب یا محض علامتی سمجھا جاتا تھا، اب عالمی سیاست کے اہم ستون بنتے جا رہے ہیں۔ انہی فورمز میں شرکت اب ایک اعزاز سمجھی جاتی ہے اور ان کے اردگرد ہونے والی ملاقاتیں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔یوکرین کے بحران کے بعد روس کو تنہا کرنے کی مغربی حکمتِ عملی نے الٹا عالمی سیاست کو مزید کثیر قطبی بنا دیا ہے۔ بیشتر ممالک اب ”عالمی اکثریت” کے تصور کے تحت اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کر رہے ہیں۔ نتیجتاً روس تنہائی کا شکار نہیں بلکہ ایک نئے قطب کے طور پر ابھرا ہے، جس کے گرد غیر مغربی ممالک مجتمع ہو رہے ہیں۔برکس کا ترقیاتی بینک ہو یا ایس سی او کے تحت ترقیاتی بینک کی تجویز، یہ سب اس بات کا اشارہ ہیں کہ عالمی مالیاتی نظام میں متبادل ڈھانچے قائم ہو رہے ہیں۔ اگرچہ یہ فوری طور پر آئی ایم ایف یا عالمی بینک کو چیلنج نہیں کر سکیں گے، مگر سمت واضح ہے: مغربی اجارہ داری کو بائی پاس کرنے کی کوشش۔ یہ عمل مغرب کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ واشنگٹن اور برسلز ہر ایسے ادارے کو اپنے خلاف سازش سمجھتے ہیں جو ان کے قابو سے باہر ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب اندرونی سکڑاؤ اور دفاعی رویے کا شکار ہو کر دنیا کے بڑے حصے سے خود کو کاٹ رہا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا سخت رویہ اس تبدیلی کو مزید تیز کر گیا۔ اتحادی تو دباؤ میں آ کر ادائیگیاں کرتے رہے، مگر آزاد ممالک نے امریکی منطق مسترد کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے کئی ممالک برکس اور ایس سی او جیسے پلیٹ فارمز کا رخ کر رہے ہیں۔ یہ ممالک کسی کے اندھے حامی نہیں بلکہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ دوسروں کے بنائے اصولوں پر جینے کے بجائے اپنی شرائط پر کھیلنا چاہتے ہیں۔روس اور چین کا بڑھتا تعاون، توانائی معاہدوں سے لے کر ویزا فری پالیسی تک، اس نئی سمت کی عکاسی کرتا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کی ”عالمی حکمرانی کی پہل” کو صدر پیوٹن کی حمایت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پلیٹ فارمز کسی مغرب مخالف سازش کے لیے نہیں بلکہ زیادہ متوازن عالمی نظام کے لیے کوشاں ہیں۔
پاکستان کا کردار اس تمام منظرنامے میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ جغرافیائی محلِ وقوع، ایٹمی صلاحیت اور خطے میں اس کے تزویراتی روابط اسے ایک کلیدی حیثیت دیتے ہیں۔ ایس سی او کا رکن ہونے کے ناطے پاکستان کو یہ منفرد موقع حاصل ہے کہ وہ نہ صرف وسطی ایشیا اور چین کے ساتھ اپنے معاشی و سلامتی تعلقات مضبوط کرے بلکہ بھارت اور دیگر رکن ممالک کے ساتھ مکالمے اور تعاون کے دروازے بھی کھلے رکھے۔ سی پیک جیسے منصوبے اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ پاکستان علاقائی تعاون کو معاشی ترقی میں ڈھال سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر نئے اتحادوں اور پلیٹ فارمز کے ابھرنے کے تناظر میں پاکستان کو اپنی پالیسیوں میں زیادہ اعتماد اور توازن دکھانے کی ضرورت ہے۔دنیا اس وقت کسی نئی سرد جنگ یا سخت بلاک بندی کی طرف نہیں جا رہی بلکہ ایک زیادہ ڈھیلے ڈھالے مگر کثیر قطبی منظرنامے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ مغرب اب بھی یہ سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر کچھ اہم نہیں ہوتا، لیکن تیانجن اور قازان جیسے اجلاس یہ واضح کر رہے ہیں کہ دنیا کا بڑا حصہ اب مغرب کے بغیر بھی آگے بڑھنے کے لیے تیار ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ اس نئے عالمی منظرنامے میں اپنی جگہ مستحکم کرے اور ”پل” کا کردار ادا کرتے ہوئے مشرق و مغرب دونوں کے ساتھ تعلقات کو متوازن رکھے۔ یہی رویہ اسے مستقبل کے عالمی سیاسی و معاشی نظام میں نمایاں مقام دلا سکتاہے۔اس وقت بین الاقوامی حالات سازگار ہیں اگر پاکستان اس موقع کو بروئے کار لاتا ہے اور اندرونی طور ر ملک میں سیاسی استحکام قائم کرتا ہے تو وہ نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک فیصلہ کن کھلاڑی کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ ورنہ تاریخ کی گاڑی آگے بڑھ جائے گی اور ہم ایک بار پھر محض تماشائی رہ جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے