کالم

مشکل وقت زندہ قوموں پر آتاہے

بارشوں سیلابوں کی زد میں آئے وطن عزیز میں اس وقت انتہائی افسوسناک صورتحال ہے ۔مجموعی طور پر ملک کا 70 فیصد حصہ ان بارشوںاور ان کے نتیجہ میں آ نےوالے سیلابوں کی وجہ سے غر قاب ہے اور کم و بیش ڈیڑھ سے تین کروڑ لوگ اپنا گھر بار اور آشیانے مکمل یاجزوی طور پر تباہ ہو جانے کے سبب کھلے آسمان تلے کسی امداد اور ریلیف کی آس میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں محتاط انداز کے مطابق ان بارشوں سیلابوں اور انکے نتیجہ میں گرنے والی چھتوں دیواروں کی زد میں آکر زندگی کی بازی ہارنے والوں کی تعداد سینکروں میں پہنچ چکی ہے جبکہ سیلابی ریلوں میں بہہ کر لا پتہ ہونے اور مرنے والوں کی تعداد بھی کسی طور کم نہیں ہے ۔یہی نہیں بلکہ جو اندازے لگائے جا رہے ہیں ان کے مطابق ہزاروں کچے پکے مکانات جھونپڑیوں کے تباہ ہونے کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ سیلاب میں بہہ جانےوالے مویشیوں کی تعداد بھی اگر لاکھوں میں نہیں تو ہزاروں میں ضرور ہے ۔ بات یہی پر ختم نہیں ہوتی سیلاب نے جس خوفناک طریقے سے آبادیوں اور فصلوں باغات پر اونچی لہروں کی شکل میں وارد ہوا ہے اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز کو نیست و نابود کر کر گیا ہے۔اب ہزاروںکسان جنہوں نے محنت شاقہ سے فصلیں کاشت کی تھیں وہ مکمل برباد ہو چکی ہیں ان کسانوں کو دوبارہ فصلیں لگانے کےلئے انتظار کرنا پڑے گا ۔اور پھر فصلیں کاشت کرنے کےلئے اڑھتیوں اور بنکوں سے قرضہ لینے کےلئے در بدر ہونا پڑے گااور جو باغات اجڑ گئے ہیں ان کا دوبارہ لگانا تو شاید ممکن نہیں لیکن اگر پھر سے درخت لگانا شروع کیے تو مالکان کو کم و بیش پانچ سے سات سال ان درختوں کے بڑے ہونے اور پھلدار بننے میں وقت لگے گا ۔رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ان بارشوں اور سیلابوں کو سبب سے زیادہ متاثرہوا ہے ۔ جہاں پہلے ہی غربت بیروزگاری بھوک اور افلاس کا راج تھا وہاں اب تک کے اندازے کے مطابق 80 انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے تقریباً ڈیڑھ کروڑ یا اس سے کچھ زیادہ آبادی کا یہ صوبہ نصف پاکستان ہے جہاں تباہی کا یہ عالم ہے کہ وہاں سڑکیں پل پانی ذخیرہ کرنےوالے ڈیم بڑی تعداد میں تباہ ہو چکے ہیں بہت سے علاقوں میں زمینی رابطے اور سفر نا ممکن ہوچکا ہے جبکہ بجلی گیس بھی دستیاب نہیں ریلوے لائنوں کو نقصان کی وجہ سے ریل کا سفر بھی تقربیاً منقطع ہے۔ سیلاب اپنی تباہ کاریاں پھیلاتا گزر گیا ہے۔ لیکن سیلاب کے بعدکے عذاب ابھی باقی ہےں وہ جن کے گھر تباہ ہوگئے جن کا روزگا ر ختم ہو گیا۔ اب انہیں دوبارہ سے خود کو زندگی کی دوڑمیں شامل کر نے کےلئے ایک مر تبہ پھر سے محنت کر نی ہو گی۔ مشکل وقت اور حالت زندہ قو موں پر آتے ہیں اور زندہ قومیں ان کا جواں مردی سے مقابلہ کر کے زندگی کا سفرپھر سے جاری کر لیا کر تی ہیں۔ لیکن رہنماﺅں سرداروں اور طاقتور طبقوں کو بھی حصہ ڈالنا پڑتا ہے سیلاب تو گزر گیا مگر اپنے پیچھے بہت سی اندوھوناک خوفناک اور شرمناک حقیقتوں کو بھی عیاں کر گیا کون پوچھے گا کہ سٹرکوں پلوں ریلو ے لائنوںڈیموں کی تعیمر میں ناقص میٹریل کا استعمال کیسے ہوا اور کون ان کا زمہ دار ہے بات صرف بلاچستان ہی کی نہیں سندھ اور صوبہ سرحد اور شمالی علاقہ جات اور خود پنجاب میں بھی ایسی ہی صورتحال رہی ہے۔ پورے ملک میںسب سے زیادہ ٹیکس ادا کر نے والا کر اچی جو کھبی عروس البلاد کہلاتا تھا۔ جو روشنوں کا شہر تھا ۔کس طرح سے نالوں پر عمارتیں بنیں کس طرح نالوں کی صفائی کے نام پر قوم کو لوٹا گیا۔ کیوں بارشوں کے پانی کےلئے راستے نہ بنائے گئے سال ہا سال سے سندھ پر حکمرانی کر نےوالوں نے اپنے ہی ووٹروں کےلئے کیا کیا سب عام آدمی کی نظر میں ہے اور صرف سر حد اور بلوچستان میں ان سٹرکوں پلوں اور دیگر تعمیرات میں گھپلے ہوئے کہ وہ سیلاب کے پہلے ہی ریلے کے ساتھ بہہ گئے شاید کوئی اعلیٰ سطح کا طاقتورترین کمیشن پورے پاکستان میں ان ناقص تعمیرات اور کاغذی منصوبوں کے بارے میں تحقیقات کر ے توپتہ چلے کہ کون کون سے خوبرو چہرے عوام کا دم بھرنے کے نام پر عوام کا دم نکانے میں ملوث ہےں۔ بارشیں سیلاب تو گزر چکا اب حکومتوں کو ان بے خانماﺅں بے یارو مدد گار لوگوں کی آباد کا ری کا سو چنا ہو گا سیلاب کے بعد آنےوالی بیماریاں سے بچاو کے انتظامات کر نا ہو ںگے عام آدمی کو زندگی کی دوڑ میں واپس لانے کےلئے حکومتی فنڈ ز اور ریاستی ثمرات کو ان لوگوں پر خرچ کر نا ہو گا۔ یہ سب کچھ ہو گا تو عام آدمی اپنے دکھ درد بھول کر دوبارہ سے ز ندگی کی ڈور میں شامل ہو سکے گا لیکن وہ جنہیں یہ سب کچھ کرنا ہے انہیں کر سی کی ڈور میں کچھ نظر ہی نہیںآرہا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے