کالم

مظلوم فلسطینیوں کے لئے آوازاٹھائی جائے

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم و جارحیت میںتیزی آگئی ہے۔ مگران مظالم پر اقوام متحدہ اور اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اس خاموشی کافائدہ اسرائیل اٹھا رہا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے اور وہ فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے میں روز افزوں اضافہ کرتا جا رہاہے۔مقبوضہ فلسطین میں گزشتہ دنوںمغربی کنارے کے جنین پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی فوج کے چھاپوں کے دوران بے گناہ فلسطینی شہریوں کی شہادت کے بعد رواں سال جنوری سے اب تک بچوں اور خواتین سمیت سو سے زیادہ افراد شہید ہوچکے ہیںجبکہ ان شہادتوں پرمحض خانہ پری کی خاطر مذمتی بیان جاری ہوتے ہیں۔فلسطین دنیا کا مظلوم ترین ملک ہے اور فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیلی جبر اور استبداد کا سامنا ہے مسلمانوں کے قبلہ اول پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور چن چن کر مسلمانوں کو گولی کے نشانے پر رکھ کر قتل کیا جارہا ہے اور دنیا خاموش ہے اور انسانی حقوق کے اداروں کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے اور اسلامی امة کو اپنے مفادات عزیز ہیں اس دوران فلسطین سے ایک بار پھر یہ صدا بلند ہوئی ہے کہ میڈیا عالمی فورمز پر ہماری مظلومیت کی آواز اٹھائے ۔ فلسطین تیل کے ذخائر سے مالامال ہے امریکہ اسرائیل کی حمایت کر کے فلسطینیوں کیلئے مسائل پیدا کر رہا ہے ۔ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ فلسطینیوں پر صیہونیوں کی جانب سے روا رکھے جانے والے مظالم دنیا کے سامنے رکھے اور مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرے بلکہ عالمی فورمز پر مظلومیت کی آواز اٹھائے ۔ مسئلہ فلسطین پوری دنیا کا مسئلہ بن چکا ہے حیرت کا مقام ہے کہ انسانیت کا درد رکھنے والے غیر مسلم یہ حقیقت مانتے ہیں کہ فلسطین میںظلم ہورہا ہے مگر اسلامی دنیا خاموش ہے البتہ ایشیائی ممالک کا فلسطین کے تنازع حل کرنے پر زور دیا جاتا ہے جس میں چین اور روس کا کردار نمایا ہے۔ جہاں بھی کسی بھی جگہ یا کسی بھی فورم فلسطین کے موضوع پہ بات ہوئی ان ممالک نے مسئلہ فلسطین کے حل پر زور دیا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان ممالک کی اکثریت اب اپنے مستقبل اور حال کے بارے میں فیصلے کا اختیار اپنے پاس رکھنے میں سنجیدہ ہو رہی ہے۔ اس سے قبل ایشیائی ممالک میں فیصلے کی باگ ڈور ہمیشہ بڑی طاقتوں اور سامراجی ممالک کے ہاتھوں میں تھی مگر اب آہستہ آہستہ یہ ممالک اپنی سلامتی او رخود مختاری کے سلسلے میں آزادانہ اندرونی و بیرونی پالیسی اپنا رہے ہیں اور دوستی و تعلقات کی نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں اگر ایشیائی ممالک باہمی اختلافات اور تنازعات کو حل کرلیں تو متحد ہوکر اپنے وسائل اور افرادی قوت کے بل بوتے پر ایک نئی طاقت کا مرکز بن سکتے ہیں اور ایشیا ٹک فیڈریشن کا خواب پورا ہوسکتا ہے آخر یورپین یونین بن سکتا ہے تو ایشیا ٹک فیڈریشن کیوں نہیں؟اس وقت ایشیا میں فلسطین ایسا مسئلہ ہے جو طویل عرصہ سے حل طلب ہے اور اس کی وجہ سے خطے کا امن مسلسل خطرے کی زد میں رہتا ہے۔اب اگر مسئلہ کے حل کی طرف ایشیائی ممالک کی تنظیم نے نشاندہی بھی کردی ہے تو اس کیلئے بھی انہیں مل بیٹھ کر کوئی نہ کوئی راہ ضرور نکالنی چاہیے تاکہ ایشیا سمیت تمام دنیا کا امن برقرار رہے۔ اس سلسلے میں مسلم ممالک کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے یہ امر حیرت انگیز ہے کہ عرب ممالک دور دراز ممالک میں جہادی سرگرمیوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں مگر مسئلہ فلسطین کو انہوں نے مسلسل نظر انداز کیا ہے مظلوم فلسطینیوں کی آواز ان کو سنائی نہیں دے رہی ہے تیرہ سال تک امریکہ کے چھتری کے نیچے افغانستان میں جہاد ہوا مگر اس دوران مسئلہ فلسطین سے غفلت برتی گئی اور جس کسی نے بھی امریکی سامراج اور صیہونیت کے خلاف آواز بلند کی میڈیا نے ان کے خلاف خوب پروپگنڈہ کیا اور ان کو بدنام کیا اور امریکی سامراج کو یہ موقع دیا کہ وہ انہیں کچل دے جس کی مثال عراق اور لیبیا ہیں جہاں صدام حسین اور معمر قذافی کو شہید کیا گیا اور ان کی حکومتوں کو گراکر وہاں کے وسائل کو لوٹا جارہا ہے اور شام کے مسئلہ کے موقع پر کچھ اسلامی ممالک سے مطالبہ سامنے آیا کہ امریکہ شام کے اسلام پسند باغیوں کی مدد کرے خرچہ ہم دینگے ۔ کیا امریکہ کو جنگ کا کرچہ دینے والوں نے کبھی مظلوم فلسطینیوں کی بابت بھی امریکہ سے بات کی ہے؟ امریکہ کے مفادات کیلئے عالم اسلام نے جنگیں لڑی اور ان جنگوں کو مقدس عنوان دے کر خرچہ بھی برداشت کیا مگر فلسطین کے مسئلہ پر انہوںنے مجرمانہ غفلت برتی ہوئی ہے کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ سامراجی چکر میں آکر مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈالا گیا فی الوقت بھی یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کہاں ہے؟ کیا دنیا کو اس کی فکر بھی ہے؟ میڈیا جو دنیا کی مﺅثر قوت ہے اسے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کی آواز اٹھائے اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کے ادارے اپنے ذمہ داریاں پوری کریں!۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے