ہمارا ملک آج بھی نظریاتی اور عملی کشمکش کا شکار ہے۔ ایک طرف”نظام بچانے“ کی صدائیں بلند کی جاتی ہیں تو دوسری طرف اسی نظام کی کرپشن، اقربا پروری اور ناانصافی کا رونا رویا جاتا ہے۔سیاست، معیشت اور سماجی انصاف کے یہ تینوں ستون اس وقت ایک دوسرے سے جڑے ہونے کے باوجود زمین بوس نظر آتے ہیں۔ ہر طبقہ، چاہے وہ سیاسی ہو یا معاشی، اپنی طاقت کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کر رہا ہے، اور عوام کی حالت بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ حکومتی سطح پر کیے گئے فیصلے ایک طرف ملک کی معیشت کو برباد کر رہے ہیں تو دوسری طرف اس سے جڑے معاشرتی مسائل مزید پیچیدہ ہو رہے ہیں۔ہمارا موجودہ نظام کیپٹل ازم کے ان اصولوں پر کھڑا ہے جنہیں میکاﺅلی، ایڈم اسمتھ اور لارڈ میکالے جیسے نظریہ سازوں نے تشکیل دیا تھا۔ اس نظام کا مرکز و محور صرف چند افراد کا اقتدار اور ان کے مفادات کا تحفظ ہے۔ عمومی طور پر اس نظام کا جو چہرہ دکھایا جاتا ہے وہ عوامی مفاد کا پرچار کرتا ہے، مگر حقیقت میں اس کا مقصد عوامی مشکلات کو حل کرنا نہیں، بلکہ سیاسی اور مالی طاقت کو چند مخصوص خاندانوں یا گروپوں تک محدود رکھنا ہے۔ عوام کی آواز کو دبایا جا رہا ہے، اور غریب عوام پر معاشی بوجھ بڑھا کر انہیں مزید پستی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ آج حکومتی عہدوں پر بیٹھے لوگ فرعونی کردار ادا کرتے ہوئے نہ صرف سوال اٹھانے والوں کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ ان کےلئے ترقی اور مساوی مواقع کے تمام دروازے بھی بند کر رہے ہیں۔
معاشی استحصال کا یہ نظام اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں غریب اور امیر کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف اشرافیہ کے شاہانہ طرزِ زندگی کی جھلکیاں ہیں، تو دوسری طرف عوام مہنگائی، بے روزگاری اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہیں۔یہ طبقاتی تفریق صرف اقتصادی نہیں بلکہ سماجی سطح پر بھی نظر آتی ہے، جہاں امیروں کو جہاں تک پہنچنا ہوتا ہے، وہاں تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے، اور غریبوں کیلئے حالات بدتر ہو جاتے ہیں۔ اس طبقاتی تقسیم کو نسلی، علاقائی، اور مذہبی تعصبات سے مزید گہرا کیا جا رہا ہے، تاکہ عوام کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرکے ان کے اتحاد کو توڑا جا سکے۔ اس عمل میں سیاسی عناصر عوامی مسائل پر بات کرنے کی بجائے اپنی اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں۔آج کا سیاسی نظام فرعونیت، قارونیت، اور ہامانیت کا امتزاج ہے۔ سیاست دان، ججز، اور دیگر مقتدر حلقے اپنی انا کی جنگ لڑ رہے ہیں، جبکہ مفاہمت اور ہم آہنگی کا فقدان پوری قوم کو عدم استحکام کی طرف دھکیل رہا ہے۔ یہ سیاسی جنگ صرف چند افراد کے مفادات تک محدود ہے، جبکہ عوام اپنے حقوق کے لیے ترس رہے ہیں۔ عوام کے مسائل پسِ پشت ڈال دیے گئے ہیں، اور ان کا مستقبل ان افراد کی انا کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔سیاست دان مذہب کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے استعمال کر رہے ہیں، دولت پر چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے، اور عوام کے حقیقی مسائل کو پروپیگنڈہ کے شور میں دبایا جا رہا ہے۔ یہ نظام اربابِ اقتدار کیلئے طاقت کو دوام دینے کا ذریعہ بن چکا ہے، جس میں انصاف، مساوات، اور انسانی وقار کے تمام اصول پامال ہو رہے ہیں۔انائیں جیت جاتی ہیں، انسان مگر ہار جاتے ہیں، رشتے بکھر جاتے ہیں، ملک اور قومیں بھی۔ دنیا ہم سے لڑ رہی ہے اور ہم آپس میں۔ رنجشیں ہو جاتی ہیں اور تنا¶ بھی، لیکن اسے انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ اناﺅں کی جنگ میں ملک ڈوب رہا ہے، اب ملک بچانا ہے یا اپنی اپنی انائیں، فیصلہ کسی اور نے نہیں، ہم نے خود کرنا ہے۔آج اگر ہم اپنی انا¶ں کو تسلیم کرتے رہیں گے تو ہم نہ صرف اپنے رشتوں کو توڑ دیں گے بلکہ ایک قوم کی حیثیت سے بھی اپنی حیثیت کھو دیں گے۔ سیاست دانوں کی آپس کی لڑائیاں، ججز کی ذاتی مفادات کے پیچھے چھپے فیصلے، اور دیگر مقتدر طبقات کی انا کے بھنور میں قوم کی تقدیر گم ہو جائے گی۔ اس وقت جب ملک کی نظریاتی اور عملی سالمیت کو بچانے کی ضرورت ہے، ہم داخلی لڑائیوں میں مشغول ہیں۔ عوام میں ایک نئی بیداری کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کو پہچانیں، اپنی آواز بلند کریں، اور ان طاقتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوں جو ان کے مفادات کو نظرانداز کرتے ہیں۔اسلامی تعلیمات اس جابرانہ نظام کے برعکس انسانیت، مساوات، اور انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کا درس دیتی ہیں۔ قرآن نے واضح کیا کہ اقتدار، دولت، اور عزت کسی خاص طبقے یا خاندان کی جاگیر نہیں ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی معاشرے نے ان اصولوں سے انحراف کیا، وہ تباہی کی طرف بڑھا۔ آج کے دور میں بھی فرعونی طاقتوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا اور عوام میں بیداری پیدا کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔معاشی اور سماجی ناانصافیوں کےخلاف جدوجہد کرنا اور عوام کو ان کے حقوق دلانا ہی موجودہ دور کے چیلنجز کا حل ہے۔ جب تک عوام سیاست اور معیشت کے ان چہروں کو پہچان نہیں لیتے، یہ فرعونی نظام اپنی جڑیں مضبوط کرتا رہے گا۔ اب وقت آ چکا ہے کہ عوام اپنی طاقت کو پہچانیں، متحد ہوں، اور ان طاقتوں کو شکست دیں جو ان کی آزادی، خوشحالی، اور وقار کے دشمن ہیں۔یقینی طور پر ایک مضبوط، آزاد، اور جمہوری پاکستان کی تعمیر اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنی انا¶ں کو پسِ پشت ڈال کر ملک کے مفاد میں سوچیں اور ایک قوم کی طرح مل کر اس فرعونی نظام کا مقابلہ کریں۔ اگر ہم نے اپنی نظریاتی اور عملی کشمکش کو حل نہ کیا، تو ہمارا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔
کالم
معاشرتی تقسیم اور اقتدار کا کھیل
- by web desk
- جنوری 24, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 7 Views
- 3 گھنٹے ago