بجلی کی قیمتوں میں حالیہ کمی سے صنعتوں اور گھریلو صارفین پر مثبت اثرات مرتب ہو نگے بجلی جتنی سستی اور وافر مقدار میں دستیاب ہو گی انڈسٹری کا پہیہ اسی تیزی سے گھومے گا اور معاشی صورتحال میں بہتری آئیگی۔حکومت کی طرف سے گردشی قرضے کے خاتمہ اور بجلی کی قیمتوں میں مزید کمی کے عندیہ سے عوام اور صنعت کاروں میں اعتماد بحال ہوگا جبکہ سرمایہ کاری اور برآمدات میں اضافہ متوقع ہے۔
پچھلے دو سالوں سے بجلی کے نرخوں میں بے پناہ اور ہوش ربا اضافہ ہوا جس سے گھریلو اور صنعتی صارفین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا آئی پی پیز کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور درپیش صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے ٹاسک فورس تشکیل دی اس ٹاسک فورس کی تجاویز اور منصوبہ کے تحت بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا۔پاور ڈویژن کے مطابق گھریلو صارفین کیلئے اوسطا 15 ًفیصد 7.41 روپے فی یونٹ بجلی کے نرخ کم کئے گئے ہیں۔ جس سے تین کروڑ 45لاکھ صارفین کو 13 سے 32 فیصد تک فائدہ ہو گا جبکہ کمرشل صارفین کےلئے بجلی کے نرخوں میں12 فیصد 8.58 روپے فی یونٹ کی کمی ہو گی۔ صنعتی صارفین کو اپنے بجلی کے نرخوں میں اوسطا ً13 فیصد 7.69 روپے فی یونٹ کی کمی کا سامنا ہوگا۔ زرعی صارفین کو اوسطا 17 فیصد 7.18 روپے فی یونٹ کی کمی کا فائدہ ہو گا۔ پچھلے کئی سالوں سے گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ سے انڈسٹری بند ہو رہی تھی جبکہ پیداواری لاگت بڑھنے سے ایکسپورٹ پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے جس سے پاکستان کو زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی کمی کا سامنا کرنا پڑا ۔مہنگی بجلی سے جہاں صنعتیں متاثر ہوئیں عوام کو بھی شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ملک کی ترقی میں مہنگی بجلی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے اور ترقی کے عمل کو آگے بڑھانے کےلئے بجلی کی قیمتوں میں مستقل کمی ناگزیر ہےاور یہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ جب سستی بجلی پیدا کی جائے۔اس وقت بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2393 ارب روپے ہے اور اس گردشی قرضے کے خاتمہ تک صورتحال بہتر ہونا ممکن نہیں ، بجلی کمپنیوں کی کارکردگی بھی اچھی نہیں عام صارفین کو ڈسکوز میں تنگ کیا جاتا ہے یہ کمپنیاں کرپشن کا گڑھ بن چکی ہے بجلی کمپنیوں سے کرپشن کے خاتمہ کیلئے موثر اور ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے اس کے لیے یا تو کمپنیوں کو پرائیویٹائز کرنا ہوگا یا پھر انہیں پروفیشنل انداز میں چلانا ہوگا بجلی قیمتوں میں حالیہ کمی پٹرولیم کی قیمتوں کو برقرار رکھ کر اس کا فائدہ انرجی سیکٹر میں دیا گیا ۔سستی اور وافر بجلی کی فراہمی کیلئے انرجی سیکٹر میں اصلاحات اور بنیادی ڈھانچہ میں ضروری تبدیلیاں کرنا ہونگی 600 روپے ارب روپے کی سالانہ بجلی چوری دیرینہ مسئلہ ہے سابقہ حکومتیں چوری روکنے میں ناکام رہیں اب بھی اگر چوری روکنے کے لیے موثر اقدامات نہ کیے گئے تو خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہو سکیں گے ۔
انرجی سیکٹر میں اصلاحات کرتے ہوئےسرکاری پاور پلانٹس جنکوز کو فروخت کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور پہلے مرحلے پر بند پلانٹس کی ایک لاٹ کو نو ارب روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے ان پلانٹس پر سالانہ 700 ارب روپے خرچ ہو رہے تھے ہزاروں ملازمین تنخواں کے ساتھ مراعات بھی وصول کر رہے تھے جبکہ یہ جنکوز ایک کلو واٹ بجلی بھی پیدا نہیں کر رہے ۔ان بند جنکوز کو فروخت کر نے سے عوام پر بوجھ کم ہو گا۔ آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں بھی ائندہ چند سالوں میں حکومت کو 3696 ارب روپے کا فائدہ ہوگا جس کا براہ راست فائدہ عوام کو ہی پہنچے گا حکومت کی طرف سے آئی پی پیز کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے نتجہ میں آئی پی پیز کو اب کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں ادائیگیاں نہیں کی جائیں گی جس سے بڑی بچت ہوگی۔ انرجی سیکٹر میں اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے تا ہم ان اصلاحات پر عمل درآمد سے ہی صعنتوں اور گھریلو صارفین کو سستی اور وافر مقدار میں بجلی کی فراہمی ممکن ہے ماحول دوست انرجی کی پیداوار اولین ترجیح ہونی چاہیے حکومت کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت اوپن مارکیٹ میں بجلی کی پیداوار کی اجازت دینی چاہیے جبکہ سولر انرجی کے لیے حکومت کو ریلیف دینا چاہیے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ ری نیو ایبل انرجی کی طرف جائیں پاکستان سولر اور ونڈ انرجی سے اپنی ضروریات کا بڑا حصہ حاصل کر سکتا ہے۔
حکومت اگرچہ بجلی کے نرخوں میں مزید کمی کرنے کے لیے پرعزم نظر اتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ہر قسم کے طبقے کو دی گئی مفت بجلی کی سہولیات واپس لی جائیں لائن لائسنز قابو پایا جائے اور بجلی چوری کے خلاف بلا امتیاز آپریشن کرتے ہوئے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے اور بجلی کے بلوں پر لاگو مختلف ٹیکسز کو فی افور ختم کیا جائے وزیراعظم کی طرف سے بجلی کی قیمتوں میں کمی کے بعد انرجی سیکٹر میں اصلاحاتی پروگرام اور سٹرکچر تبدیلیوں پر عمل درامد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی براہ راست مانیٹرنگ کی جائے تاکہ خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جا سکے اور جاری منصوبوں پر عمل درامد کو بروقت یقینی بنایا جائے پچھلے 77 سالوں سے منصوبے تو بنتے آ رہے ہیں قانون سازی بھی ہوتی ہے لیکن ان پر عمل درامد نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ۔
کالم
معاشی استحکام اور توانائی کی قیمتیں
- by web desk
- اپریل 7, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 206 Views
- 5 مہینے ago