سائیکل ہی تو ہماری معاشی ترقی کی اصل دشمن ہے۔جب سے یہ عجیب وغریب جملہ ہوا کے دوش پہ میری سماعتوں سے ٹکرایا ہے،میری حیرانی اور پریشانی بڑھ گئی ہے۔ اور میں اس سوچ میں گم ہوں کہ سائیکل،بے چاری غریب آدمی کی سواری، فقیرانہ آثار،دھیمی رفتار،ہر کسی کے کام آنے پر تیار،موٹر سائیکلوں کے طوفان بدتمیزی اور چھوٹی بڑی گاڑیوں کے بے ہنگم شور میں خاموشی سے خراماں خراماں سوئے منزل رواں دواں،بھلا،معاشی ترقی کی دشمن کیسے ہو سکتی ہے؟شعور و لاشعور کے درمیان حیرت کے سفر کی گتھیاں کون سلجھائے۔ مجھے تسلی بخش جواب کی تلاش نے بے تاب کر دیا اور میں کسی ماہر معاشیات کی تلاش میں چل نکلا جو سائیکل کی معاش دشمنی پر روشنی ڈال کرمیری حیرت کو کم کرسکے۔بہت ڈھونڈنے کے بعد میں نے اپنے اندر جھانکا تو وہ بنیا معیشت دان مجھے اپنی ہی ذات کے خول میں، باہر جھانکتا ہوا نظر آیا۔وہ ذرا ڈرا ہوا اور سہما سہما سا تھا۔اس بیچارے کو توکبھی میں نے لفٹ ہی نہیں کرائی تھی۔جب کبھی مجھے کسی مشورے سے نوازتا،جھاڑ کھاتا تھا۔ میری دنیا سے بے پروائی اور فقیری مزاج کی وجہ سے بہت نحیف و نزار ہوچکا تھا۔میں نے پہلی باراسے چمکارا،اور اس سے جملے کی وضاحت چاہی تو میری محبت میں دیوانہ ہو کر کہنے لگا کہ میں نے کتنی بار آپ کو مشورہ دیا تھا کہ بنک سے نئی گاڑی نکلوا لو،قسطوں پر دوچار پلاٹ لے لو،اور کسی بڑی کمپنی میں شئر خرید لو۔آپ کے بچے بھی خوش ہو جائیں گے اور آپ کے بھی عیش ہو جائیں گے مگر آپ نے تو میری ایک نہ سنی۔پرانی سوزوکی لیانا خرید لی جو آئے دن خراب رہتی ہے۔اور آپ نے پلاٹ کے متعلق تو ابھی تک سوچا بھی نہیں ہے۔مجھے اس کی بات سن کر پھر غصہ آگیا۔میں نے کہا مجھے مشورے مت دو۔سیدھا سیدھا میرے سوال کا جواب دو۔میرے تیور دیکھ کر وہ جھینپ سا گیا۔کہنے لگا میں سائیکل کو اس لیے ناپسندکرتا ہوں کہ مجھے تو نئی نئی کاریں پسند ہیں۔ میں نے کہا! اپنی پسند نا پسند اپنے پاس رہنے دو۔مجھے بتا¶ کہ سائیکل بیچاری ملکی معیشت کی دشمن کیسے ہے۔کہنے لگا سائیکل غریب آدمی کی سواری ہے جس کا ملکی معیشت میں کوئی کردار ہی نہیں ہوتا۔ وہ کار خرید سکتا ہے نہ ہی کار خریدنے کے لیے بنک سے قرض لیتا ہے۔نہ تو اس کے پاس کوئی انشورنس پالیسی ہوتی ہے، نہ ہی وہ سالانہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔پھرآئے دن پیٹرول کی قیمتوں ہونے والے ہوش ربا اضافے سے بھی اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ گاڑی کی سروس، مرمت کے اخراجات،کار پارکنگ فیس، ٹول پلازوں کے ٹیکس،کچھ بھی تو وہ ادا نہیں کرتا۔پھر سائیکل چلانے کی وجہ سے صحت مند بھی رہتا ہے۔میلوں کی مسافت آرام سے مفت میں طے کر لیتا ہے۔اب آپ خود بتائیں،جہاں سائیکلوں کی کثرت ہو وہاں ملکی خزانہ کیسے بھرے گا اور پیدل چلنے والے لوگ توملکی معیشت کے لیے اوربھی خطرناک ہیں کیونکہ وہ تو سائیکل بھی نہیں خریدتے۔سائیکل چلانے اور پیدل چلنے کی وجہ ان کی صحت بھی مثالی ہوتی ہےاوروہ مطمئن زندگی گزارتے ہیں۔ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں نہ دوائیں خریدتے ہیں۔وہ اور ان کے بچے چکن برگر،سینڈوچز،پیزا،کولڈ ڈرنکس،اور دیگر تعیشات نفسانی و جسمانی سے دور ہی رہتے ہیں۔یہ لوگ ملک کے جی ڈی پی میں کچھ اضافہ بھی نہیں کرتے۔چنانچہ ثابت ہوا کہ سائیکل ملکی معیشت کی دوست نہیں دشمن ہے اور سائیکل چلانے والا غریب آدمی ملکی دولت کے اضافہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔میں نے کہا! غربت کا خاتمہ تو حکومت کا اور دولت مند اشرافیہ کا فرض ہے۔کہنے لگا!یہاں کوئی بھی اپنا فرض پہچاننے اور ادا کرنے کو تیار نہیں ہے۔یہاں لوگ پیسہ اور آسانیاں تقسیم کرنے کے عادی نہیں ہیں، البتہ دولت اکھٹی کرنے کے شوقین ضرور ہیں۔اسی لیے میں نےبھی آپ کو دولت مند بننے کا خواب دکھلایا تھا۔ اورہمارے ملک کوبھی امیر آدمیوں کی ضرورت ہے،جو دولت کمائیں۔ چاہے باہر سے کما کر لائیں یا یہیں سرمایہ کاری کریں۔وہ بیرون ملک آف شور کمپنیاں بنائیں یا اندرون ملک تجارت کریں۔ پہلی صورت ہو یا دوسری ملک میں پیسہ گردش کرے گا اور ٹیکسوں کی مد میں بھی ملکی خزانہ بھرتا رہے گا۔میں نے کہا خزانہ تو بھرا رہے گا مگر اس سے غریب آدمی کی زندگی کیسے بہتر ہو گی اور ملک میں غربت کا خاتمہ کیسے ہو گا۔کہنے لگا جب ملک میں پیسہ زیادہ ہو گا تو سب کے پاس گاڑیاں ہونگی تو غربت کا خاتمہ ہو جائے گا۔اس کی یہ عجیب و غریب منطق میری سمجھ سے بالاتر تھی مگر میں سوچنے لگا اس جدید معاشی نظام میں جس کی بنیاد عالمی سرمایہ دارانہ نظام پر قائم ہے، غریب ہونا آدمی کو کتنا غیر اہم بنا دیتا ہے۔اس لیے تم بھی زیادہ دولت پیدا کرنے کا سامان کرو۔میرے اس خیال پر اس ماہر معاشیات بنیے نے خوب داد دی لیکن اگلے ہی لمحے ضمیر کی عدالت لگ گئی۔وہاں خواجہ ضمیر جج کرسی پر متمکن تھے۔اور فرما رہے تھے،قناعت میں لطف اور مزا ہے وہ زیادہ کی حرص میں ہرگز نہیں ہے۔سائیکل کے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہنے لگے۔سائیکل ہماری خودداری کی علامت سواری ہے۔ہمارا سائیکل سوار خودی کی طاقت سے بھرا ہوا،وہ غیور انسان ہے جسے کسی گاڑی والے سے لفٹ نہیں چاہیے۔اس کی غربت کا مذاق اڑاتے ہوئے دولت مندوں کی ملٹی نیشنلز کمپنیوں نے منصوبہ بندی سے،اسے تنہا ضرور کر دیاہے لیکن وہ اس تنہائی میں بھی ثروت مند وغیرت مند دکھائی آتا ہے۔اشرافیہ اسے ناکارہ انسان سمجھتی ہے کیونکہ وہ جدید دنیا کا چلتا ہوا پرزہ نہیں ہے۔لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اسے اپنی پہچان اور اپنا عرفان حاصل ہو چکا ہے۔ اس نے شان بے نیازی کی چادر اوڑھ کر جو منزل پا لی ہے، وہ اہل ثروت کی ٹک ٹک کرتی کافی کی پیالیوں اور تیز رفتار زندگی سے بدرجہا بہتر اور برتر ہے۔سرمایہ دار جس نظام کے ذہنی وجسمانی غلام ہیں وہ اس نظام میں زندہ رہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔سو ہمیں غلاموں کی غلامی سے نجات پانے کے لیے اپنی سائیکل کو رواج دینا ہو گا۔ملٹی نیشنلز کے بجائے نیشنلزکو ترجیح دینا ہوگی۔بڑے بڑے اسٹورز پر ماہانہ خریداری کے بجائے گا¶ں اور گلی کی نکڑ اور بازار کی عام دکان سے سودا سلف خریدنا ہو گا۔ سبزیاں گھر کے صحن یا مکان کی چھت پر اگانی ہوں گی۔ بجلی اور روشنی کےلیے اپنی سولر انرجی پیدا کرنی ہوگی۔ دنیا میں عزت اور غیرت بڑی چیز ہے اورغلامی بندوں کی ہو یا اشیا کی بدترین چیز ہے ۔ سوہمیں حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی زبان میں اپنے لوگوں کو بتانا ہو گا کہ
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمَرا کے در و دیوار ہِلا دو
گرما¶ غلاموں کا لہُو سوزِ یقیں سے
کُنج شکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سُلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کُہَن تم کو نظر آئے، مِٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسرّ نہیں روزی
اُس کھیت کے ہر خوشہ ءگندم کو جلادو
کالم
معاشی ترقی کی دشمن
- by web desk
- اکتوبر 26, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 232 Views
- 1 سال ago