بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں پولیس نے جمعرات کو کتابوں کی دکانوں پر چھاپے مارے، یہ کارروائی ان 25 کتابوں پر پابندی کے بعد کی گئی جن میں سے ایک بْکر پرائس ونر اروندھتی رائے کی بھی ہے، حکام کا کہنا ہے کہ یہ کتابیں ‘علیحدگی پسندی کو ہوا دیتی ہیں’۔ یہ چھاپے اس وقت مارے گئے جب بھارتی حکومت نے مصنفین پر الزام لگایا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں ‘جھوٹا بیانیہ’ پھیلا رہے ہیں اور ‘نوجوانوں کو ریاست کیخلاف گمراہ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں’۔ پولیس نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ ‘اس آپریشن کا مقصد علیحدگی پسند نظریات کو فروغ یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والے مواد کو نشانہ بنانا ہے ‘امن اور سالمیت برقرار رکھنے کیلئے عوام سے تعاون کی درخواست کی جاتی ہے’۔فروری میں جاری ایک ملتے جلتے حکم کے بعد حکام نے کتابوں کی دکانوں اور گھروں سے اسلامی لٹریچر بھی ضبط کیا تھا۔کتابوں پر پابندی کا حکم منگل کو جاری کیا گیا، جو اس دن کے ساتھ ملا جب نئی دہلی نے براہِ راست حکمرانی مسلط کرنے کی چھٹی سالگرہ منائی، اگرچہ اس پابندی کو عوامی سطح پر آنے میں کچھ وقت لگا۔میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ اس طرح کے آمرانہ اقدامات کرنے والوں کا یہ قدم دراصل ان کے عدم اعتماد اور محدود فہم کو ہی بے نقاب کرتا ہے۔’علما اور نامور مؤرخین کی کتابوں پر پابندی تاریخی حقائق اور کشمیری عوام کی جیتی جاگتی یادوں کو مٹا نہیں سکتی’۔ زمینوں پر قبضہ، ترقی کے نام پر آبادی کے تناسب میں تبدیلی، غیر کشمیری ہندوؤں کو ڈومیسائل جاری کر کے کشمیر میں آباد کرنا، اور اب اسلامی کتابوں پر پابندی،یہ سب ایک گہری سازش کے تحت ہو رہا ہے۔ہندو انتہا پسندوں کے دباؤ پر، بھارتی حکومت کشمیر کا نام تک تبدیل کرنے کے عزائم رکھتی ہے، جیسا کہ ہندوستان کے دیگر شہروں کے اسلامی نام تبدیل کیے جا چکے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ سید مودودی کی کتب پر پابندی لگائی گئی ہو، سعودی عرب، ہندوستان اور دیگر کئی ممالک میں ان کی تحریریں پہلے ہی ممنوعہ قرار دی جا چکی ہیں، جیسا کہ سید قطب شہید اور محمد قطب سمیت دیگر مصنفین کی کتب پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان کتابوں میں اسلامی طرزِ حکومت، سیاسی اسلام اور اسلامی دستور کے حق میں فکر انگیز مباحث پائی جاتی ہیں، جو استعماری اور ظالمانہ حکومتوں کیلئے ایک چیلنج بن سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کتابوں کو عوام تک پہنچنے سے روکنے کیلئے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ہندوستان میں مسلمانوں کیخلاف اقدامات کسی ایک پہلو تک محدود نہیں رہے۔عدالتی فیصلے، حکومتی نوٹیفیکیشنز اور مختلف سازشی ہتھکنڈوں کے ذریعے اسلامی شعائر اور شناخت کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ان اقدامات کیخلاف مسلمانوں کی جانب سے کوئی متفقہ اور مؤثر مزاحمت دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ شاید ابھی مسلمان اس سنگین سازش کی گہرائی کو پوری طرح سمجھ نہیں سکے کہ ان کا انجام کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے۔پابندی کی فہرست میں 25 ایسی کتابیں شامل ہیں جو حکام کے مطابق ‘جھوٹا بیانیہ اور علیحدگی پسندی کو فروغ دیتی ہیں’، ان میں اروندھتی رائے کی 2020 میں شائع ہونے والی مضامین کی کتاب ‘آزادی: فریڈم، فاشزم، فکشن’ بھی شامل ہے۔ 63 سالہ اروندھتی رائے بھارت کی سب سے مشہور زندہ مصنفین میں سے ایک ہیں، لیکن ان کی تحریروں اور سرگرمیوں، خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت پر ان کی سخت تنقید نے انہیں ایک متنازع شخصیت بنا دیا ہے۔دیگر ممنوعہ کتابوں میں ممتاز ماہرِ قانون اے جی نورانی اور لندن اسکول آف اکنامکس میں سیاسیات کے پروفیسر سومنترہ بوس کی تصانیف بھی شامل ہیں۔مورخ صدیق واحد نے کہا کہ یہ حکم آئین کی خلاف ورزی ہے ‘جو اظہارِ رائے اور تقریر کی آزادی کی اجازت دیتا ہے’، ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘پابندی کی فہرست میں کئی ایسی کتابیں ہیں جو ایسے مصنفین اور اداروں نے شائع کی ہیں جن کی ساکھ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنے نتائج کے لیے شواہد، منطق اور دلائل فراہم کریں، کیا اب اس کی کوئی اہمیت نہیں رہی؟’معروف کشمیری شاعر فیاض دلبر کہتے ہیں ماضی میں بھی کئی کتابوں پر پابندی لگائی گئی تھی، لیکن پابندی لگانے والوں نے وہ کتابیں پڑھی ہی نہیں تھیں ۔’آپ قاری کو مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ کیا پڑھے اور کیا نہ پڑھے۔ یہ اْس کی اپنی مرضی ہے۔ ہاں اگر حکومت نے باضابطہ سروے کرکے پتہ لگایا ہے کہ کوئی کتاب منفی سوچ پیدا کررہی ہے تو اس کا علاج بھی پابندی نہیں، اس کیلئے دوسرے طریقے ہیں۔’قابل ذکر ہے کہ کالعدم قرار دی گئیں کتابوں میں اکثر ایسی ہیں جنہیں امریکہ، برطانیہ اور انڈیا کے معروف اشاعتی اداروں نے شائع کیا ہے۔ آرٹیکل 370 منسوخی کے بعد انتظامیہ نے یہاں کی یونیورسٹیوں کو حکم دیا کہ بشارت پیر کی ‘کرفیوڈ نائٹس’، مرزا وحید کی ‘کولابوریٹر’ اور آغا شاہد علی کی انگریزی غزلوں کے مجوعے کو نصاب سے خارج کیا جائے۔بعض مبصرین کہتے ہیں کہ کتابوں پر پابندی ان کتابوں کی مشہوری کا سبب بنتی ہیں۔کتاب میلے میں موجود ایک قاری نے بتایا کہ ‘ابھی تک ایک مخصوص حلقے نے ان کتابوں کا مطالعہ کیا تھا، لیکن اب پوری آبادی میں تجسّس ہے کہ آخر ان کتابوں میں اتنا کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ اب آن لائن اور دوسری ریاستوں سے ان کتابوں کو خرید کر پڑھیں گے۔ پابندی فلم پر ہو یا کتاب پر یہ مشہوری کا سبب بنتی ہے۔’

