کالم

مقبوضہ کشمیر اجڑی بستی

مقبوضہ کشمیر کے حصے بخرے کئے چھ سال بیت گئے۔ اس پورے عرصے میں کشمیریوں نے بھارتی اقدام کو قبول نہ کرتے ہوئے بھرپور مزاحمت جاری رکھی۔ بھارتی فورسز کے ظلم و ستم سہے۔ ہزاروں کشمیریوں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے مگر بھارت اپنی من مانی نہ کرنے دی۔ بھارت نے آج بھی کشمیریوں کے متوقع احتجاج کو کچلنے کیلئے فوج اور پولیس کو مسلم آبادی والے علاقوں میں تعینات کررکھا ہے۔ بھارتی فورسز کی طرف سے مقبوضہ علاقے کے اطراف میں جاری محاصرے اور تلاشی کی پر تشدد کارروائیوں کے باعث علاقہ کسی اجڑی ہوئی بستی کا منظر پیش کر رہا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے ۔بھارتی کارروائیوں کا مقصد کشمیریوں کو انتقام کانشانہ بنا نا ،تحریک آزادی سے دور رکھنے کیلئے خوف میں مبتلا کرنا ہے کشمیری تمام تر مظالم اور مصائب ومشکلات کے باوجود اپنی جدوجہد آزادی کو جاری رکھنے کیلئے پرعزم ہیں۔ بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں کشمیر کو وفاق میں ایک خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ اس خصوصی حیثیت میں ریاست کو اپنا آئین بنانے اور نافذ کرنے کا حق حاصل تھا۔ اس کے علاوہ متعدد معاملات میں بھارتی وفاقی آئین کا نفاذ جموں کشمیر میں ممنوع تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور آرٹیکل 35 اے بھی منسوخ کیا گیا جس کے تحت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے سوا بھارت کا کوئی بھی شہری یا ادارہ جائیداد نہیں خرید سکتاتھا جبکہ سرکاری نوکریوں، ریاستی اسمبلی کیلئے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف کشمیر میں پیدا ہونیوالے کشمیری باشندوں کو حاصل تھا ۔ ان دونوں آرٹیکلز کی منسوخی کے بعد مقبوضہ کشمیر کی صورتحال یکسر تبدیل ہو کر رہ گئی۔ آئین کے آرٹیکل 35 اے کے تحت اس بات کا فیصلہ کرنے کا اختیار کشمیری ریاست کو حاصل تھا کہ ریاست کا مستقل باشندہ کون ہے۔ بھارتی آئین کا یہ آرٹیکل کشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کے تحفظ کا سب سے بڑا ذریعہ تھا لیکن اب بھارتی شہری مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور یہاں کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلا جا سکتا ہے ۔یہ ویسا ہی منصوبہ ہے جس پر اسرائیل نے فلسطینی علاقوں پر قبضے کیلئے استعمال کیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تعینات لاکھوں بھارتی فوجیوں نے پہلے ہی اس متنازعہ علاقے میں زمین کے بڑے بڑے قطعات پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ پاکستان نے اس وقت بھی دنیا کو خبردار کیاتھا کہ مودی حکومت 5 اگست 2019ء کے غیر آئینی’ غیر قانونی اقدام کو ختم کرنے کے لئے دبائو ڈالا جائے۔ یہ اقدام نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی ہے بلکہ یہ عالمی قوانین کے بھی صریحاََ خلاف ہے۔دنیا بھارت کے اس ظالمانہ اقدام کیخلاف آج بھی خاموش ہے اور اس کا خمیازہ مقبوضہ ریاست کے اصلی باشندوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے دنیا بھر کے جمہوری ریاستیں اورانسانی حقوق کی تنظیمیں مودی حکومت کے غیر آئینی اقدامات کیخلاف آواز اٹھائیں اوراقوام متحدہ اپنی قراردادوں کی خلاف ورزی پر بھارتی حکومت کو فوری طور پر غیر کشمیری باشندوں کے نام ووٹر لسٹوں سے خارج کرنے کا انتباہ جاری کرے تاکہ کشمیر عوام کوبھارتی استحصال سے بچایا جا سکے۔ اگست 2019کے بعد مقبوضہ کشمیر کی صورتحال انتہائی ابتر ہو گئی ہے۔ جس طرح جموں وکشمیر کے ساتھ سلوک کیا گیا،اسکی خصوصی حیثیت کومنسوخ کیا گیا اور مختلف کالے قوانین نافذ کیے گئے، اورکشمیریوں کوانکی زمینوں، ملازمتوں، معدنیات اور دیگر قدرتی وسائل کولوٹا گیا وہ افسوسناک ہے۔ مودی حکومت اب کشمیریوں کے بے گھر کرنے پر تلی ہوئی ہے۔محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ”پہلے کشمیریوں کو دہشت گرد کہا جاتا تھا، پھر منشیات کے عادی اور اب انہیں اپنی ہی زمینوں پر قابض قابض قراردیاجارہا ہے۔ لوگ زمینوں سے بے دخلی کے خلاف عدالت میں جا سکتے ہیں لیکن عدالتوں میں انصاف کیسے ہوتا ہے سب جانتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہندوستان کے چیف جسٹس نے کہا کہ ضلعی عدالتیں خوفزدہ ہیں۔ کشمیریوں سے انکی زمینیں اور گھر چھیننے سے شدید خوف پایا جاتا ہے۔ بی جے پی کشمیریوں کی منفردشناخت کو مٹانا چاہتی ہے۔بی جی پی کا واحد مقصد ہے، وہ جموں و کشمیر کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا چاہتی ہے ، اسی لیے کشمیریوں سے انکی زمینیں اور ملازمتیں چھینی جارہی ہیں۔ آبادی کے تناسب کوبگاڑنے کیلئے غیر کشمیری ہندوئوں کو مقبوضہ علاقے میں آباد کیاجارہا ہے اور انہیں ووٹر لسٹوں میں بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ جموں وکشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے۔یکم جنوری 1949ء کی جنگ بندی کے بعد کشمیری ظلم کی جس طویل رات سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں اس نے ہر ایک کشمیری کو یہ بات سمجھا دی ہے کہ آزادی خیرات میں نہیں ملتی۔اس کیلئے جدو جہد کرنا پڑتی ہے۔ قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ لاشے اٹھانے پڑتے ہیں۔ دشمن کی قوت کو اپنے مقابلے میں ہیچ ثابت کرنا پڑتا ہے۔ تب جا کر ریاست جموںو کشمیر میں آزادی کی کرنوں کے مدہم سائے ابھرنے لگے ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر کوئی بڑا علاقہ نہیں، گنجان آباد بھی نہیں، بظاہر آزادی کیلئے ہتھیار اٹھانے والوں کی تعداد بھی زیادہ نہیں مگر ان کے مقابل بھارت کی آٹھ لاکھ فوج ہیچ ثابت ہوئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے