کالم

مقبوضہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ

غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ایک تنازعہ ہے جس کی توثیق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں بھی کی گئی ہے۔ بھارت کے 5اگست 2019ء کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات جن سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی گئی، ان قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں نام نہاد وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے زر قیادت قابض حکام پر زور دیا ہے کہ برطرف کیے گئے ملازمین کا موقف سنا جائے کیونکہ قانون کے تحت مجرم ثابت ہونے تک ہر کوئی بے قصور ہے۔بھارت کے غیرقانونی زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں کل جماعتی حریت کانفرنس نے اسلامی اور تاریخی کتابوں کے خلاف کریک ڈاﺅن پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ اس کا مقصد کشمیریوں کو ان کی اسلامی شناخت سے دور کرنا ہے۔حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے ایک بیان میں منوج سنہا کی زیرقیادت ہندوتوا حکومت کی طرف سے اسلامی لٹریچر کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت کی۔ منوج سنہا کی زیر قیادت قابض انتظامیہ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس کا مقصد سکولوں میں ہندوتوا نظریہ مسلط کرکے مقبوضہ کشمیر کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنا ہے۔بھارتی پولیس نے سرینگر میں کتب فروشوں کیخلاف کریک ڈاو¿ن کرتے ہوئے 6 سوسے زائد دینی کتب ضبط کر لیں۔ ضبط شدہ تصانیف میں جماعت اسلامی کے بانی ابوالاعلیٰ مودودیؒ، امین احسن اصلاحی اور تحریک آزاد ی کشمیر کے معروف قائد سید علی گیلانی شہید کی تصانیف شامل ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما اور بھارتی پارلیمنٹ کے رکن روح اللہ مہدی نے بھی کتابوں کی ضبطی کو کھلا ریاستی جبر قرار دیتے ہوئے اسکی مذمت کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما التجا مفتی نے کہا کہ اب مقبوضہ جموں وکشمیرمیں معلومات تک رسائی کے بنیادی حق کی بھی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی نے بھارتی پولیس کی طرف سے اسلامی لٹریچر کے خلاف جاری کریک ڈاﺅن کی مذمت کرتے ہوئے اسے مذہبی آزادی پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے۔ ڈی ایف پی کے ترجمان ایڈووکیٹ ارشد اقبال نے کہا کہ یہ اقدام ہندوتوا کی ذہنیت کا عکاس ہے جو مسلمانوں کی شناخت، تاریخ اور ثقافت کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے سکول بچوں کو صبح کی اسمبلیوں میں بھارت کاقومی ترانہ گانے کے لئے مجبور کرنے پر مودی حکومت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس حکم نامے کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعلیمی اداروں کے خلاف بی جے پی حکومت کی طرف سے شروع کی گئی ریاستی دہشت گردی قرار دیا ہے۔بی جے پی کی حکومت نے مقبوضہ علاقے کے تمام اسکولوں کو صبح کی اسمبلیوں میں بھارت کاقومی ترانہ گانے کا حکم دیا ہے تاکہ کشمیری مسلمان طلبا کو اپنے مذہبی اور ثقافتی ورثے کو ترک کرنے پر مجبورکیا جائے۔حریت ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ اس اقدام کا مقصد علاقے کی مسلم شناخت کو مٹانا اور مسلم اکثریت والے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں ہندوتوا نظریہ مسلط کرنا ہے۔ 1937ءمیں ہونیوالے انتخابات کے بعد کانگریس نے کئی صوبوں میں اپنی حکومتیں قائم کیں تو انہیں اپنے انتہاپسندانہ نظریات مسلمانوں پر مسلط کرنے کا موقع میسر آگیا، اسی تناظر میں ایک حکمنامہ کے تحت تمام سکولوں میں بندے ماترم گانا لازمی قرار دے دیا جس کی قائداعظم محمد علی جناح ؒنے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے شدید مزاحمت کی تھی۔ مسلمان اس فیصلہ کیخلاف سراپا احتجاج بن گئے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ بندے ماترم بت پرستی کا شاہکار اور مجموعی طور پر مسلمانوں کیخلاف اعلان جنگ ہے۔ ”بندے ماترم“ ایک نفرت انگیز گیت ہے۔ اس کا پس منظر ایک ایسے ڈرامے سے جڑا ہوا ہے جس میں مرکزی نظریہ مسلمانوں کی مسجدوں کو برباد کرنا اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ یہ ان انتہا پسند ہندو تنظیموں کا نعرہ بھی رہاجو خانہ کعبہ پر قبضہ کر کے وہاں ”اوم“ لکھنا چاہتے تھے۔ اس میں درگا دیوی کو ماں کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے بنیادی عقائد کے خلاف ہے۔ بھارتیہ جنتاپارٹی کی بھارتی حکومت نے کشمیریوں کیخلاف کریک ڈاو¿ن مزید تیز کرتے ہوئے مزید 3مسلمان ملازمین کو برطرف جبکہ ایک اور کشمیر ی کی املاک ضبط کر لیں۔ نئی دلی کے مسط کردہ لیفٹیننٹ گورنر کے ماتحت انتظامیہ نے مقامی پولیس کانسٹیبل فردوس احمد بٹ، معلم محمد اشرف بٹ اور محکمہ جنگلات کے ملازم نثار احمد خان کو برطرف کر دیا۔ برطرف شدہ ملازمین جھوٹے الزامات کے تحت پہلے ہی مختلف جیلوں میں بند ہیں۔انتظامیہ نے ضلع بارہمولہ کے ایک رہائشی کا مکان، پولٹری فارم اور دو کنال اراضی غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون ”یو اے پی اے“ کے تحت ضبط کر لیے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق نے خبردار کیا ہے کہ خصوصی حیثیت کی منسوخی، زمینوں اورجائیدادوں پر قبضے اور مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی شناخت کو تبدیل کرنے سمیت کشمیرمخالف اقدامات کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی بقاءکو خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے تمام برادریوں پر زور دیا کہ وہ ان خطرات کے خلاف متحد ہو جائیں انہوں نے کشمیری پنڈتوں کے لیے علیحدہ بستیوں کے قیام کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا۔ضلع کولگام میں ایک خانہ بدوش خاندان کے تین افراد گزشتہ تین دن سے لاپتہ ہیں۔ یہ افراد جن کی شناخت ریاض احمد، شوکت احمد اور مختار احمد کے ناموں سے ہوئی ہے، 13فروری کی شام کو قاضی گنڈ میں اپنے گھر سے نکل گئے اور کولگام کے علاقے اشموجی بھان میں اپنے ماموں کے گھر ایک شادی میں شرکت کے لیے گئے، تب سے یہ تینوں افراد لاپتہ ہیں۔ ایک پولیس افسر نے تصدیق کی کہ لاپتہ افراد کی رپورٹ درج کر لی گئی ہے اور ان کو تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے