غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر اسمبلی کے سپیکر عبدالرحیم راتھر نے کہا ہے کہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کیلئے اسمبلی کی طرف سے منظور کی گئی قراردادمزید کارروائی کے لیے متعلقہ حکام کو بھجوا دی گئی ہے۔ قرارداد اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں منظوری کے فورا بعد بھجوادی گئی تھی ،بطور سپیکر ان کا کردار ووٹوں کی گنتی کے ذریعے غیر جانبدارانہ عمل کو یقینی بنانا تھا تاہم انہوںنے اپنی غیر جانبدانہ پوزیشن برقرار رکھی ۔ قرارداد کے حق میں 62 اور مخالفت میں 28 ووٹ ڈالے گئے تھے۔ قرارداد میں بھارتی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے منتخب نمائندوں کے ساتھ خصوصی حیثیت کی بحالی، آئینی ضمانت اور دفعات کی بحالی کیلئے آئینی طریقہ کار پر کام کرنے کےلئے بات چیت شروع کرے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون ساز اسمبلی خصوصی حیثیت اور آئینی ضمانتوں کی اہمیت کی توثیق کرتی ہے، جس نے کشمیر کے لوگوں کی شناخت، ثقافت اور حقوق کا تحفظ کیا اور اس کی یکطرفہ برطرفی پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ جموں وکشمیر اسمبلی بھارتی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے منتخب نمائندوں کے ساتھ خصوصی حیثیت کی بحالی، آئینی ضمانت اور دفعات کی بحالی کےلئے آئینی طریقہ کار پر کام کرنے کےلئے بات چیت شروع کرے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد بھارتی فوج کی سفاکیت اور بربریت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔کشمیر میں مظالم تو پہلے ہی جاری تھے اب ان کی شخصی آزادی بھی چھین لی گئی۔ان کو گھروں میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔بھارت و اقوام متحدہ کی قراردادوں تک کو نہیں مانتا اس کی اپنی کٹھ پتلی اسمبلی کی قرارداد کی اس کے سامنے کیا حیثیت ہوگی ۔ عام کشمیری کو اس بات کا علم ہے اسی لیے وہ اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔جسے بھارت کی طرف سے کچلنے کی ہمیشہ کوشش کی گئی ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کو یہ قرارداد ایک آنکھ نہیں بھائی، اِس کے 29 ارکان ا±س اسمبلی کا حصہ ہیں اور ا±ن سب ہی نے درمیان میں کھڑے ہو کر احتجاج شروع کر دیا، سپیکر کی بار بار اپیل کے باوجودنشستوں پر نہ بیٹھنے اور ایوان میں ہنگامہ آرائی کرتے رہے۔ بی جے پی ارکان نے خصوصی حیثیت کی بحالی کے خلاف نعرے بازی کی اور قرارداد پیش کرنےوالوں پر پاکستانی اور ملک دشمن ایجنڈا کے حامی ہونے الزام عائد کیا۔ معاملہ اسوقت بگڑ گیا جب بھارتی پارلیمنٹ کے ر±کن انجینئر عبدالرشید کے بھائی خورشید شیخ آرٹیکل 370 اور 35۔اے کی فوری بحالی کے مطالبے کا بینر ا±ٹھائے ایوان میں داخل ہوئے، یہ دیکھ کر بی جے پی کے ارکان بالکل ہی آپے سے باہر ہو گئے، انہوں نے خورشید شیخ کو گھیر لیا، ہنگامہ آرائی عروج پر پہنچ گئی،انتہائی تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ بی جے پی کے لوگوں نے قرار داد کی کاپیاں چھیننے کی کوشش کی تو ہاتھا پائی بھی ہوئی۔یہ اچھی ضد اور ہٹ دھرمی ہے، بھارت اقوام متحدہ کی ساری قراردادوں کو ہوا میں ا±ڑا چکا ہے، شملہ معاہدے کی بھی اِس نے لاج نہیں رکھی اور خود ہی یکطرفہ طور پر کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ بھی کر ڈالا۔ یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019ءکو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35۔اے کو منسوخ کر دیا تھا، بھارتی سپریم کورٹ بھی اِس پر مہر ثبت کر چکی ہے، اِس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنے کے لئے وہاں باہر سے لوگوں کو بسانا بھی شروع کر دیا تاکہ اگر کبھی بادل نخواستہ استصوابِ رائے کرانا پڑ گیا تو فیصلہ اس کے حق میں ہی آئے۔زیر بحث دفعات کو منسوخ کرنے کے بعد بھارتی حکومت نے کشمیر میں ظلم و ستم کا نیا دور شروع کر دیا، انٹرنیٹ بند کر دیا، وہاں کے لوگوں کا بیرونی دنیا سے رابطہ ختم کر دیا، خواتین کی عصمت دری کی گئی، ہزاروں کشمیری بالخصوص نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا، وہ بھارت کی مختلف جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دیا جاتا ہے، وہاں کے رہائشی بنیادی انسانی سہولیات اور حقوق سے محروم ہیں لیکن عالمی برادری خاموش ہے، آج تک کوئی بھارت کو ا±س کا اصل چہرہ نہیں دِکھا سکا۔ بھارت نے لگ بھگ ایک دہائی تک مقبوضہ کشمیر میں انتخابات نہیں ہونے دئیے، رواں برس ستمبر میں انتخابات ہوئے تو حکمران جماعت ب±رے طریقے سے ہار گئی،سرکاری مشینری کے استعمال کے باوجود تین مراحل میں 90 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف 29 نشستیں ہی حاصل ہوسکیں جبکہ نیشنل کانفرنس کے اتحاد نے کل 53 نشستیں حاصل کیں جس میں نیشنل کانفرنس 42 اور کانگریس نے چھ نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ بعد میں چار آزاد امیدواروں اور ایک اور جماعت کے واحد رکن نے بھی نیشنل کانفرنس کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔ نیشنل کانفرنس کے پارلیمانی رہنما عمرعبداللہ وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب ہو گئے۔ انتخابی نتائج نے ثابت کر دیا کہ کشمیری عوام نے مودی سرکار کے کالے قانون کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کو مسترد کر دیا۔ بھارتی سیاسی تجزیہ کاروں کا یہی کہنا ہے کہ مودی حکومت کی سر توڑ کوششوں کے باوجود کشمیری خصوصی حیثیت کی بحالی کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔کشمیری بخوبی واقف ہیں کہ یہ کام صرف بھارتی پارلیمان ہی کر سکتی ہے لیکن پھر بھی وہ ڈٹے ہوئے ہیں، ہو سکتا ہے اگلا دور نریندر مودی کا نہ ہو اور ایسی حکومت بن جائے جو کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحال کر دے۔ وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے منتخب ہونے کے بعد یہی کہا تھا کہ وہ جانتے ہیں کشمیر کی حیثیت ختم کرنے والی مودی حکومت کسی صورت اِس آرٹیکل کو بحال نہیں ہونے دے گی لیکن یہ حکومت ہمیشہ نہیں رہے گی، ا±نہیں ا±س حکومت کا انتظار کرنا ہو گا جو اِس آرٹیکل کو بحال کرائے۔اہل ِ کشمیر کی جدوجہد تو دہائیوں سے جاری ہے، ا±ن کے ہمت و حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے،وہ اچھے دِنوں کی آس میں بھارتی حکومت کے تمام تر مظالم سہہ رہے ہیں، زیادتیاں برداشت کر رہے ہیں۔