صحافیوں کے حقوق اور صحافتی آزادی کیلئے کام کرنے والی عالمی تنظیم ” رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز” (آر ایس ایف )نے کہا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی زیرقبضہ جموںوکشمیر میں صحافی مسلسل دباؤ، دھمکی اور پر خطرماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ مقبوضہ جموںو کشمیر اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ فوجی تعیناتی والے خطوں میں سے ایک ہے ، اگست 2019 کے بعد سے علاقے میں آظہار رائے کی آزادی کے حق کو سلب کر لیا گیا، مئی 2025 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جھڑپوں کے دوران صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ اس دوران میر گل نامی صحافی کو سوشل میڈیا پوسٹ پوسٹ پر گرفتار کیا گیا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور فوجی کارروائیوں جیسے حساس موضوعات کو کور کرنے والے صحافیوں کو نگرانی، گرفتاریوں اور انتقامی کارروائیوں کا سامنا ہے۔ 2019 کے بعد سے کم از کم 20 صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں ”کشمیر والا ”کے ایڈیٹر فہد شاہ بھی شامل ہیں، فہد شاہ کو تقریبا دو برس قید رکھا گیا۔ ایک اور صحافی عرفان معراج کو بھی غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون ”یو اے پی اے” کے تحت 2023 میں گرفتار کیا گیا۔آر ایس ایف کے ساؤتھ ایشیا ڈیسک کی سربراہ Célia Mercier نے کہاجموں و کشمیر میں میڈیا کے پیشہ ور افراد مستقل دھمکیوں کے ماحول میں کام کر رہے ہیں ، انہیں شدید پابندیوں اور مسلسل نفسیاتی دباؤ کا سامناہے۔ انہوںنے بھارت پر زور دیا کہ وہ پریس کی آزادی کا احترام کرے۔ پاسپورٹ کی منسوخی، پریس کارڈ کی فراہمی سے انکار اور بھارتی حکام کے دیگر ناروا اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد متو کو سفری دستاویزات کے باوجود 2022 میں بیرون ملک جانے نہیں دیا گیا۔ 2022 میں کشمیر پریس کلب کی بندش نے مقامی رپورٹرز کو پیشہ ورانہ جگہ سے محروم کردیااور انہیں مزید مشکلات کا شکار کر دیا۔ کشمیر میں انٹرنیٹ کی پابندیاں ایک مستقل رکاوٹ بنی ہوئی ہیں، خدمات کو 2G تک محدود کر دیا گیا۔ فوجی کارروائیوں کے انٹرسروس معطل کر دی جاتی ہے۔آر ایس ایف نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی صحافت سے انکار نہ صرف صحافیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ متنازعہ اور بھارت کے زیر قبضہ علاقے میں لاکھوں لوگوں کو آزادانہ اور قابل اعتماد معلومات کے حق سے بھی محروم کر دیتا ہے۔گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران متعدد صحافیوں کی تھانوں میں طلبی، گرفتاری اور مقدموں کی وجہ سے پہلے ہی یہاں کی صحافتی برادری عجیب الجھن کا شکار ہے۔ 5 اگست 2019 سے اب تک کم سے کم ایک درجن صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ کام کے لئے یا تو ہراساں کیا گیا یا جسمانی طور پر حملہ کیا گیا۔ 14 اگست 2019 کو عرفان امین ملک کو پولیس نے ترال میں واقع ان کی رہائش گاہ سے اٹھایا اور بغیر کسی وجہ کے حراست میں لیا۔ 31 اگست 2019 کو، گوہر گیلانی، کو دہلی کے ہوائی اڈے پر حکام نے روک لیا اور بیرون ملک پرواز سے روک دیا گیا۔ یکم ستمبر 2019 کو پیرزادہ عاشق کو پولیس اسٹیشن طلب کیا گیا اور دبائو ڈالا گیا تاکہ وہ اپنی کہانی کے ذرائع کو ظاہر کرے۔ ایک آزاد صحافی مزمل مٹو کو اس وقت پیٹا گیا جب وہ سری نگر کے پرانے شہر میں کاوجا بازار کے علاقے میں مذہبی اجتماع کی کوریج کر رہے تھے۔ 17 دسمبر 2019 کو، پرنٹ کے اذان جاوید اور نیوز کلیک کے انیس زرگر پر پولیس نے اس وقت جسمانی حملہ کیا جب وہ سری نگر میں احتجاج کی کوریج کررہے تھے۔ 30 نومبر 2019 کو، اکنامک ٹائمز کے حکیم عرفان اور انڈین ایکسپریس کے بشارت مسعود کو پولیس نے طلب کیا اور ان کی خبروں کے ذرائع کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ 23 دسمبر 2019 کو، ہندواڑہ میں بشارت مسعود اور اسکرول کے صفوت زرگر کو پولیس نے روک لیا، جب وہ ایک اسائنمنٹ پر تھے۔ انہیں ایس پی ہندواڑہ کے دفتر لے جاکر پوچھ گچھ کی گئی۔ 8 فروری 2020 کو ، آوٹ لک کے نصیر گنائی اور ہارون نبی کو پولیس نے طلب کیا اور جے اینڈ کے لبریشن فرنٹ کے جاری کردہ بیان پر رپورٹنگ کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ 16 فروری 2020 کو ، نیوز کلیک کے کامران یوسف کو ٹویٹر استعمال کرنے کے شبے میں پولیس نے اس کے گھر سے اٹھایا۔ اپریل 2020 کو، ایک مقامی انگریزی روزنامہ ، کشمیر آبزرور کے ساتھ کام کرنے والے صحافی مشتاق احمد کو جموں و کشمیر پولیس نے اس وقت مارا پیٹا اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا جب وہ شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع میں اپنی ذمہ داری نبھا رہے تھے۔ پولیس لاک اپ میں اسے دو دن تک حراست میں رکھا گیا۔ 20 اپریل 2020میں جموں و کشمیر پولیس نے مسرت زہرہ اور پیرزادہ عاشق کے بعد معروف ٹی وی پینلسٹ اور صحافی گوہر گیلانی کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔ پچھلے سال اے ایف پی کے سینئر فوٹو جرنلسٹ توصیف مصطفی کو سب انسپکٹر عہدے کے ایک پولیس اہلکار نے اس وقت حبس بے جا میں رکھا جب وہ سرینگر ہوائی اڈے پر سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کے باہر علیحدگی پسند رہنماوں کی کوریج کررہے تھے۔ حملے کے دوران دیگر صحافیوں – فاروق جاوید اور شعیب مسعودی ، شیخ عمر اور عمران نصار بھی زخمی ہوئے۔

