خبر چھپی ہے کہ چیئرمین بحریہ ٹان ملک ریاض حسین نے افشاں کالونی راولپنڈی میں واقع اپنے آبائی گھر کو اولڈ ایج ہوم بنا دیا ہے۔ اس گھر میں تقریبا 22 معمر افراد کے رہنے کی گنجائش ہے اور رہائش پذیر افراد کو کھانے پینے، علاج معالجہ، ادویات سمیت تمام بنیادی سہولیات میسر ہیں۔ والدین، عزیز و اقارب اور بے سہارا افراد کے ساتھ حسن و سلوک کے حوالے سے سور بقرہ کی آیات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہنا اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھی اور لوگوں سے اچھی طرح(نرمی کے ساتھ)بات کرنا اور نماز پڑھتے رہنا اور زکو دیتے رہنا۔ برادرم حنیف خالد فرماتے ہیں کہ چیئرمین بحریہ ٹاﺅن نے ان آیات کو مشعل راہ بناتے ہوئے معمر اور بے سہارا افراد کو ان اولڈ ایج ہومز میں تمام بنیادی سہولیات فراہم کر رکھی ہیں۔ اس ضمن میں میرا اپنا ہی ایک شعر ہے کہ:
بے کسوں کے سنگ ہو جا دو چند سے دور کنارہ کر
بن تو آس بے آسروں کی بے چاروں کا چارہ کر
چیئرمین بحریہ ٹاﺅن نے اصغر مال سکیم راولپنڈی میں اپنے ایک اور آبائی گھر میں بیگم اختر رخسانہ ، آپ کا اپنا گھر میں بھی 40مرد و خواتین کی رہائش کے لیے اولڈ ایج ہوم بنا کر مختص کیا ہوا ہے اور ان کی تمام ضروریات زندگی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ان دونوں گھروں میں مساجد بھی بنائی گئی ہیں جہاں پانچ وقت کی باجماعت نماز کی ادائیگی کا اہتمام ہوتا ہے اور دینی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ میں ذاتی طور پر ملک ریاض سے کبھی بھی نہیں ملا اور نہ ہی ان کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں لیکن اکثر احباب یہ بتلاتے ہیں کہ وہ بہت بڑی بڑی مساجد بنواتے ہیں اور غریبوں اور بے سہاروں کی امداد بھی فرماتے ہیں۔ در حقیقت اس ساری کائنات اور زمین پر رہنے والے سبھی انسانوں کے لیے یہ لازم و ملزوم ہے کہ وہ ایسے ہی کام کریں کیونکہ یہی تو کام ہوتے ہیں انسان کے کرنے کے۔ دنیا بھر کے نظریہ ہائے فکر و مذاہب کے نزدیک بے روزگاروں کو روزگار و روٹی دینا، بے سہاروں کو سہارا دینا اور بھوکے کو کھانا کھلانا سب سے بڑی نیکی ہے۔ بابا گرو نانک نے کہا تھا کہ جس کو خدا کا نام میٹھا لگا اس کا دل مسرور ہے خوشیوں سے بھرپور ہے اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کےلئے خدمت خلق سے بہتر کوئی کام نہیں ہے۔ عبدالستار ایدھی جی سے ان کی زندگی میں کسی نے پوچھا تھا کہ آپ مولوی ہیں، صوفی ہیں، یا پھر سوشلسٹ ہیں۔؟ تو موصوف نے جواب دیا تھا کہ میں مولوی نہ صوفی نہ سوشلسٹ ہوں بلکہ میں تو خالی خادم ہوں کیونکہ اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں مگر دوسروں کےلئے جینا ہی تو اصل زندگی ہے۔ میںنے فخر پاکستان عبدالستار ایدھی جی کو بصورت شعر کہا تھا کہ:
تختوں تاجوں والے بیشک پر تیرے جیسا کون
تو اس قوم کا ہیرو اصلی تو اس قوم کی جان
کاش ہمارے کرتا دھرتا لوگ ، صاحبان سیاست و حکومت و اپوزیشن کے سب سالار بھی خدمت انسانی کے یہ کام سمجھ لیں اور سیکھ لیں۔ صد افسوس و ماتم کے بڑے بڑے محلات بنگلوں میں ان ناخداں کے گھوڑے اور کتے تو سونے کے نوالے لیتے ہیں جبکہ ایک عام انسان دو وقت کی روٹی کو روتا ہے پینے کےلئے صاف پانی کو ترستا ہے مگر شرم ان شریفوں کو اور اشرافیہ کو بلکہ بدمعاشیہ کو پھر بھی نہیں آتی۔ یہاں کی میاں منشا، ملک ریاض، میاں نواز شریف، علیم خان اور جہانگیر ترین جیسے امیر ترین موجود ہیں جو ایک دن میں پاکستان کے بیرونی و اندرونی تمام تر قرض اتار سکتے ہیں معیشت کو سہارا دے سکتے ہیں لیکن یہاں ہر کوئی اپنے اپنے اثاثے بڑھانے پہ لگا ہے، اپنے اپنے پانامہ کی پڑی ہے، اپنی اپنی شوگر ملو کا رونا ہے الغرض سبھی کو اپنے اپنے بزنس عزیز ہیں اور سبھی کو اپنے اپنے ایون فیلڈ کی فکر ہے۔ حکومت بجلی، گیس اور اشیائے خورد و نوش مزید مہنگی کر رہی ہے، انہیں کوئی فکر نہیں غریب کا چولہا جلے گا کیسے اور چلے گا کیسے۔ انڈسٹری تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، بےروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس قدر مشکلات اور سنگین ترین حالات میں حکومت و اپوزیشن سمیت سب کو معیشت کو ایک چیلنج جان کر اور باہم مل کر اس کا مقابلہ کرنا چاہیے تھا لیکن انہیں کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو دیکھیں تو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھی ان کی آپس کی تکرار اور محاذ آرائی کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا حالانکہ ملکی حالات یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ ہم سب آپس میں مل بیٹھیں اور ملک و قوم کا سوچیں۔ اپنی اپوزیشن کو تو پتا ہی نہیں ہے کہ اپوزیشن کہتے کس شے کو ہیں ، شاید یہ شور شرابے کو ہی خدمت اور سیاست سمجھ بیٹھے ہیں۔ وہ شیر افضل مروت ہیں جو کچھ دنوں سے مسلسل ایک ہی بیان بولے جا رہے ہیں کہ اگر مجھے کچھ ہوا تو ذمہ دار مریم نواز اور شہباز ہوں گے ۔ سوچنا یہ ہے کہ یہ کیوں انہیں قتل کروائیں گے۔ آپ سب دیکھیں یار یہ کیا باتیں ہیں بھائی۔ 9مئی کے بعد پی ٹی آئی تو ICUسے نکل ہی نہیں رہی ہے. خدارا حکمت و اخلاقیات اور مفاہمت کی سیاست کو سمجھو بھی اور سیکھو بھی نہیں تو تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں بلکہ میں آپ کو آپ ہی کے الفاظ میں کہوں گا کہ انصافیو ! ہوش کے ناخن لو ورنہ وڑ جاﺅ گے ۔
کالم
ملک و قوم کا سوچیں
- by web desk
- مارچ 22, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 526 Views
- 9 مہینے ago