دنیا بھر کے ممالک نے اپنی قومی ترجیحات میں منشیات کے خاتمے کو وہ مقام نہیں دیا جس کا یہ متقاضی تھا ۔دنیا بھر کے ممالک مل کر ان آٹھ دس ممالک کا ناطقہ بند نہیں کر سکے جو اس کو پیدا کرتے ہیں حالانکہ یہ تمام ممالک اپنے ہاں منشیات کو روکنے کیلئے بنائے گئے اداروں پر اربوں ڈالر سالانہ خرچ کر رہے ہیں جو پیدا ہونے والی ان تمام منشیات کی قیمت سے کہیں زیادہ ہے ۔ پاکستان اور افغانستان جغرافیائی لحاظ سے ایک دوسرے سے متصل ملک ہیں ۔اس جغرافیائی قربت کی بدولت پاکستان کو دہشت گردی ،اسمگلنگ اور منشیات کے کاروبار جیسے سنگین خطرات لاحق رہتے ہیں ۔افغانستان دنیا کی 40فیصد منشیات اور 90فیصد افیون پیدا کرتا ہے ،جہاں اس کی منشیات اپنی سرحدوں سے کہیں آگے نکل کر پورے خطے اور دنیا کو متاثر کرتی ہیں وہاں پاکستان دیگر دنیائی خطوں کی ترسیلات منشیات کیلئے ایک گزرگاہ کی حیثیت بھی رکھتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان افغانستان سے ترسیل کی جانیوالی منشیات کے اثرات سے متاثرہ ریاست ہے ۔پاکستان منشیات کے خلاف اپنی جنگ میں ثابت قدم ہے اور خطے و عالمی سطح پر منشیات کی روک تھام کی کوششوں میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے ۔”قومی انسداد منشیات پالیسی 2019ء کے تحت پاکستان اپنے معاشرے کو نشہ آور اشیاء سے پاک کرنے کیلئے بھرپور اقدامات کرتا ہے اور اسمگلنگ کو زمینی ،فضائی اور بحری راستوں سے ناکام بناتا ہے ۔اس ضمن میں پاکستان کے فعال اور جاندار کردار کو اقوام متحدہ کا ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم ‘یو این او ڈی سی ،نار کوٹک ڈرگز کمیشن ،ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن نیشنل کرائم ایجنسی اور انٹر پول جیسے عالمی ادارے تسلیم کرتے ہیں ۔دنیا بھر میں پندرہ سے چونسٹھ سال تک کی عمر کے افراد میں منشیات کا استعمال اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ منشیات کے عادی افراد کی تعداد تقریباً ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور اس میں سالانہ تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔منشیات کے عادی افراد میں 67فیصد مرد ،18فیصد خواتین اور 15فیصد بچے شامل ہیں جبکہ مجموعی طور پر 75فیصد ایسے افراد کی عمریں 18سے35سال کے درمیان ہوتی ہیں ۔ہر محب وطن ،درد مند اور حساس پاکستانی اس شدید خطرے کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا سکتا ہے کہ وطن عزیز کی بعض یونیورسٹیوں اور کالجوں میں مقیم طلباء و طالبات تک نشے کے عادی پائے گئے ہیں جو کہ ملک و قوم کا مستقبل ہیں ۔یہ لعنت نوجوانوں کو تباہی کی طرف لے کر جا رہی ہے ۔نشہ کو جرائم کی ماں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ۔پاکستان میں چالیس فیصد جرائم صرف نشے کے عادی افراد کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگ ہر ایسا غیر قانونی کام کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں جس کے باعث نشے کا حصول ممکن ہو ۔منشیات کا مسئلہ موجودہ دور میں اتنی سنگین صورت اختیار کر گیا ہے کہ اب یہ کسی خاص علاقے یا طبقے تک محدود نہیں بلکہ اس کی تباہ کاریوں نے عالمی دنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔2001ء سے پاکستان کو ”پوست سے پاک ریاست ” کے طور پر عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے ۔ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف جہاں دیگر کمزوریوں کو انقلابی اصلاحات کے ذریعے دور کرنے کی سعی کر رہی ہیں وہاں ان کی یہ سوچ کہ نوجوان نسل افیون ،چرس ،ہیروئن ،آئس جیسے نشے کی لت میں مبتلا ہو کر مثبت کردار ادا کرنے سے محروم ہو رہی ہے اور منشیات کی یہ لعنت جس نے تعلیمی اداروں تک بھی رسائی حاصل کر لی ہے ،اس کا قلع قمع کرنا ضروری ہے ۔اسی سوچ کے تحت وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے ڈرگ فری پنجاب ویژن کی تکمیل میں منشیات فروشوں کے خلاف پنجاب پولیس کا کریک ڈائون جاری ہے ۔آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور کی قیادت میں لاہور سمیت صوبے بھر میں منشیات فروشوں کے ٹھکانوں پر ٹارگٹڈ آپریشنز میں بڑی مقدار میں منشیات برآمد کی جا رہی ہیں اور ملزمان کو گرفتار کیا جا رہا ہے ۔یہ ایک اچھا اقدام ہے مگر پولیس افسران خود اس گھنائونے کاروبار میں ملوث ہیں سب سے پہلے ان کا محاسبہ ہونا چاہیے ۔تقریباً ایک سال قبل پنجاب میں 200سے زائد پولیس افسران اور اہلکاروں کے سہولت کار ہونے کا نکشاف ہوا تھا ۔پنجاب پولیس کی سرو لائنس برانچ کی تیار کردہ رپورٹ جو آئی جی پنجاب کو بھجوائی گئی ۔رپورٹ کے مطابق لاہور سمیت صوبے کے 10اضلاع کے 234پولیس افسران اور اہلکاروں کے نام بھی اس میں شامل تھے جن میں سے 9پولیس افسر یونیفارم میں منشیات فروشی کرتے ہیں۔بلاشبہ آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے اس رپورٹ پر سخت نوٹس لیتے ہوئے ان اہلکاروں کے خلاف فوری کاروائی کاحکم بھی دیا مگر آج تک ان سبھی اہلکاروں کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی اور ان میں سے بیشتر آج بھی اس مکروہ دھندے میںملوث ہیں ۔سب سے پہلے ان کے خلاف کاروائی عمل میں لا کر ہی منشیات کے دھندے کو روکنا ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔اس وقت عالمی ادارے ،دفاعی ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی اس لعنت کے خاتمے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں لیکن بہتر نتائج اس وقت تک سامنے نہیں آسکتے جب تک سماج کا ہر فرد خود ہی اپنی ذمہ داری بروئے کار نہیں لاتا ۔معاشرے میں برائیوں کے خاتمے کے بعد ہی حقیقی معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے نے منشیات کے عادی مختلف طبقات کی عمرانی اور نفسیاتی تحقیق کے سائنسی مطالعہ میں بہت کم دلچسپی لی ہے ۔منشیات کے عادی افراد سے نفرت نہیں بلکہ انہیں گلے لگانے اور ان کی دلجوئی کی ضرورت ہے ۔ غربت اور بے روز گاری جہاں بہت سی برائیوں کو جنم دیتی ہے ان میں سے نشہ بھی ایک ہے اور بے روزگار نوجوان غلط سوسائٹی میں بیٹھ کر اپنی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے نشہ میں پناہ ڈھونڈتا ہے ۔ ہمارے ہاں نشہ کے پھیلائو کی ایک بڑی وجہ اس کی رسائی آسان ہونا ہے ۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ملک کے تمام شہروں ،قصبوں اور گلی کوچوں میں ہیروئن سمیت تمام دوسرے نشوں کی فروخت کا دھندہ عام تھا ۔ افسوسناک پہلو یہ تھا کہ تمام تر اقدامات اور انسداد منشیات کیلئے کی جانے والی کوششوں کے باوجود منشیات کے فروغ اور اس کے عادی لوگوں میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہی دیکھنے میں آیا اور حکومتی کوششیں انسداد منشیات میں نتیجہ خیز اور بار آور نہ ہو سکیں ۔ منشیات کے خاتمے کیلئے صرف ان لوگوں کو پکڑنا اور سزا دلوانا جو اس نشے کے عادی ہیں اور بڑے سمگلروں پر ہاتھ نہ ڈالنا اور ان با اثر مجرموں کیفر کردار تک نہ پہنچانا جو اس نشہ کا سبب اور بڑے بڑے کردار ہیں اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے برائی کے پودے کو جڑ سے نہ اکھاڑا جائے بلکہ صرف اس کے پتوں کو جھاڑ دیا جائے یا صرف شاخوں کو کاٹ دیا جائے ۔مریم نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے آئی جی پنجاب عثمان انور کی تعیناتی ان کو اس عہدے کا اہل جان کر دی ۔آئی جی پنجاب ڈاکٹرعثمان انور کی تعیناتی کا مقصد جرائم کا خاتمہ ،تھانہ کلچر میں تبدیلی اور پولیس اصلاحات کو مضبوط اور توانازندگی دینا تھا ۔آئی جی صاحب ان مقاصد کے حصول میں بڑی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں ۔ ویسے تبدیلی کا عمل بتدریج ہوتا ہے اور شعور و آگہی سے پیدا ہوتا ہے ۔مشہور فلاسفر بطلیموس نے کہا تھا کہ ”حکمت عملی قوت بازو سے زیادہ کام کرتی ہے ”۔آئی جی صاحب کی دانائی ، فراست اورانتظامی امور پر دسترس و تجربہ مثالی ہے جس کے مثبت پہلو نظر آرہے ہیں ۔اپنے ضلع سیالکوٹ میں منشیات کے حوالہ سے بات کی جائے تو نشہ کے عادی افراد کی تعداد دو لاکھ سے زائد ہے ۔سیالکوٹ میں تعینات ڈی پی او فیصل شہزاد سے راقم کی بالمشافہ ملاقات اور شناسائی تو نہیں لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ جب سے انہوں نے ضلع کا چارج سنبھالا ہے ماضی بمقابلہ حال بہتر ہے ۔ڈی پی او صاحب کرپٹ اہلکاروں کی سرکوبی کیلئے بھی سر گرم عمل ہیں ۔راقم کے گائوں کا چٹی شیخاں کا متعلقہ تھانہ مراد پور ہے ۔اس تھانہ میں ایک ماہ قبل تعینات ہونیوالے ایس ایچ او قیصر بشیر گھمن ایک نوجوان افسر ہیں ۔راقم کے گائوں میں نشہ کا پھیلائو اور اس کی خریدو فروخت انتہائی سطح کو چھو چکی تھی ۔ ایس ایچ او قیصر بشیر گھمن نے اس وباء کو بڑی حد تک کنٹرول کیا ہے ،اب نشئی تو حال حال نظر آہی جاتے ہیں لیکن خرید و فروخت مکمل بند ہو چکی ہے ۔