کالم

منشےات سے لڑنے کےلئے آہنی عزم درکار ہے

دنےا بھرمےں 26جون منشےات کے عالمی دن کے طور پر مناےا گےا ۔ےہ دن منشےات کے استعمال اور اس کی غےر قانونی تجارت سے آگاہی کے دن کے طور پر مناےا جاتا ہے ۔منشےات کے مضر اثرات سے عوام کو باخبر رکھنے کےلئے ےو اےن او کی جنرل اسمبلی نے 1967ءمےں اس دن کو منانے کا فےصلہ کےا تھا ۔ےہ دن دنےا بھر مےں اس عزم کے ساتھ مناےا جاتا ہے کہ ہم سب بنی نوع انسان کو منشےات کے عفرےت سے بچائےں گے اور معاشروں مےں اس کے خلاف بےداری کا شعور پےدا کرےں گے ۔دنےا بھر کے ممالک نے اپنی قومی ترجےحات مےں منشےات کے خاتمے کو وہ مقام نہےں دےا جس کا ےہ متقاضی تھا ۔دنےا بھر کے ممالک مل کر ان آٹھ دس ممالک کا ناطقہ بند نہےں کر سکے جو اس کو پےدا کرتے ہےں حالانکہ ےہ تمام ممالک اپنے ہی منشےات کو روکنے کےلئے بنائے گئے اداروں پر اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہےں جو پےدا ہونے والی ان تمام منشےات کی قےمت سے کہےں زےادہ ہے ۔دنےا بھر مےں پندرہ سال سے چونسٹھ سال کی عمر کے افراد مےں منشےات کا استعمال اس حد تک بڑھ گےا ہے کہ سوا کروڑ سے زائد پاکستانی نشے کی لت مےں مبتلا ہےں اور اس مےں سالانہ تےزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔منشےات کے عادی افراد مےں 67فےصد مرد 18فےصد خواتےن جبکہ 15فےصد بچے شامل ہےں جبکہ مجموعی طور پر 75فےصد اےسے افراد کی عمرےں 35سال کے درمےان ہوتی ہےں ۔سب سے زےادہ استعمال کی جانے والی نشہ آور چےز چرس ہے جس کے عادی افراد کی تعداد چار ملےن سے زائد ہے ہےروئن اور افےون استعمال کرنے والوں کی تعداد منشےات کے عادی افراد کا اےک فےصد ہے ۔پرےشان کن حقےقت ےہ ہے کہ ہےروئن کے نشے مےں مبتلا ہونے والوں مےں اکثرےت کی اوسط عمر 24سال سے کم ہے اور جس مےں بتدرےج تےزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔اس وقت راقم کے ضلع سےالکوٹ مےں منشےات کے عادی افراد کی تعداد تےن لاکھ سے زائد ہے ۔گزشتہ دو تےن دہائےوں کے دوران منشےات کے عادی افراد کی تعداد مےں بے پناہ اضافہ دےکھنے مےں آےا ہے ۔ےہی سبب ہے کہ پاکستان کے قرےباً ہر چھوٹے بڑے شہر اور قصبوں مےں مختلف فٹ پاتھوں ،پلوں کے نےچے ،پارکوں ،گرےن ،قبرستانوں مےں لوگ انجکشن لگا کر ،پاﺅڈر ےا دوسری اشےاءکو سونگھ کر نشہ کرتے نظر آتے ہےں ۔مےڈےا رپورٹس کے مطابق پوری دنےا مےں 29کروڑ 60لاکھ سے زائد منشےات کے عادی ہےں ´پاکستان مےں اس حوالے سے ماےوس کن صورتحال دکھائی دےتی ہے کےونکہ منشےات اور اسمگلروں کے خلاف اب تک موثر کاروائےاں نہےں کی جا سکی ہےں کہ اس لعنت کا خاتمہ ےقےنی بناےا جا سکتا ۔اس وقت عالمی ادارے ،رفاعی ادارے اور غےر سرکاری تنظےمےں اس لعنت کے خاتمے کی تگ و دو مےں لگے ہوئے ہےں لےکن بہتر نتائج اس وقت تک سامنے نہےں آ سکتے جب تک سماج کا ہر فرد انفرادی طور پر اپنی ذمہ داری بروئے کار نہےں لاتا ۔معاشرے مےں برائےوں کے بعد ہی حقےقی معاشرہ تشکےل پاتا ہے ۔معاشرے مےں پھےلی برائےوں کے خاتمہ کےلئے نہ صرف حکومت بلکہ عام شہری کا بھی اتنا ہی کردار بنتا ہے ۔افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے نے منشےات کے عادی مختلف طبقات کی عمرانی اور نفسےاتی تحقےق کے سائنسی مطالعہ مےں بہت کم دلچسپی لی ہے ۔منشےات کے عادی افراد سے نفرت نہےں بلکہ انہےں گلے لگانے اور ان کی دلجوئی کی ضرورت ہے ۔منشےات فروشی کے خلاف عالمی دن مناےا جاتا ہے ،سمےنارز کا انعقاد اور واکز کا اہتمام کےا جاتا ہے لےکن پس پردہ وجوہات اور محرکات کا خاتمہ نہےں کےا جاتا جن کے کارن نشے کئے جاتے ہےں ۔وہ لوگ جو کسی طرح شدےد احساس محرومی ،احساس کمتری ےا احساس برتری کا شکار ہو جاتے ہےں ےہ چےز ان کی شخصےت مےں بگاڑ اور جذبات مےں الجھاﺅ پےدا کرتی ہے ۔ےہ بھی اےک حقےقت ہے کہ انسان اپنی محرومی کا بدلہ ضرور لےتا ہے ۔اس کا بدلہ لےنے کا انداز انفرادی اختلافات کی بنا پر مختلف ہوتا ہے ۔کبھی انسان دوسروں کو نقصان پہنچا کر مطمئن ہو جاتا ہے اور کبھی خود کو تسکےن پہنچا کر تسکےن حاصل کرتا ہے ۔اپنے آپ کو سب سے الگ کر کے اپنی ذات مےں دب کر رہ جاتا ہے ۔فرد جب بھی کسی قسم کی محرومی ےا ناکامی کا شکار ہو جاتا ہے تو اپنی محرومی کا بدلہ لےنے کےلئے حقےقت سے فرار حاصل کرتا ہے ۔ہر مسئلے اور پرےشانی سے لاتعلق ہو کر اےک خےالی دنےا بنا لےتا ہے ۔اس طرح وہ اپنی انا کے دفاع کی کوشش کرتا ہے ۔غربت اور بے روزگاری جہاں بہت سی برائےوں کو جنم دےتی ہے ان مےں نشہ بھی اےک ہے اور بے روزگار نوجوان غلط سوسائٹی مےں بےٹھ کر اپنی پرےشانےوں سے نجات حاصل کرنے کےلئے نشہ مےں پناہ ڈھونڈتا ہے اور اےسے مےں وہ نشہ کی لعنت مےں اےسا بری طرح گرفتار ہو جاتا ہے کہ اسے دےن و دنےا کی بالکل خبر نہےں رہتی ۔اکثر لوگ اپنی غربت بھری زندگی سے تنگ آ کر اس لعنت مےں گرفتار ہو جاتے ہےں اور بعض لوگ دوسرے سماجی مسائل جےسے محبت مےں ناکامی اور ظلم و نا انصافی سے دلبرداشتہ ہو کر اعصابی تناﺅ کم کرنے اور غم مٹانے کےلئے اس قبےح عادت مےں گرفتار ہو جاتے ہےں ۔
اگر ہم چاہتے ہےں کہ نشے کو ختم کےا جائے تو اس کے پس پردہ عوامل و محرکات کو بھی ختم کرنا ہو گا ۔ہر محب وطن درد مند اور حساس پاکستانی اس شدےد خطرے کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا سکتا ہے کہ لاہور کے دس کالجوں اور ےونےورسٹےوں مےں لےا گےا جائزہ کچھ خوفناک حقائق سامنے لاتا ہے ۔جن طلبہ کا معائنہ کےا گےا ان مےں ستاون فےصد کسی نہ کسی قسم کی منشےات کا استعمال خوفناک حد تک بڑھ رہا ہے ۔پاکستان مےں چالےس فےصد جرائم صرف نشے کے عادی افراد کرتے ہےں کےونکہ ےہ لوگ ہر غےر قانونی کام کرنے کےلئے ہمہ وقت تےار رہتے ہےں جس کے باعث نشے کا حصول ممکن ہو ۔نشے کی لعنت کے خاتمے کےلئے غربت ،بے روزگاری اور نا انصافی جےسے مسائل سے قوم کو نجات دلانی ہو گی ۔نشے کے پھےلاﺅ کی اےک بڑی وجہ اس کی رسائی آسان ہونا ہے ۔وطن عزےز مےں اس کاحصول ناممکن نہےں ۔ےہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ملک کے تمام شہروں ،قصبوں اور گلی کوچوں مےں ہےروئن سمےت تمام دوسرے نشوں کی فروخت کا دھندہ عام ہے ۔منشےات کا مسئلہ موجودہ دور مےں اتنی سنگےن صورت اختےار کر گےا ہے کہ اب ےہ کسی خاص علاقے ےا طبقے تک محدود نہےں رہا بلکہ اس کی تباہ کارےوں نے عالمی دنےا کو بھی اپنی لپےٹ مےں لے لےا ہے ۔پوری دنےا کے معاشروں مےں اس لعنت کے سبب سنگےن جرائم مےں اضافہ ،دےگر سماجی و معاشرتی برائےاں اور پےچےدہ اخلاقی مسائل پےدا ہو رہے ہےں ۔پاکستان مےں 1979ءمےں افےون کی کاشت کو مکمل طور پر ممنوع قرار دے دےا گےا تھا اس کے باوجود بھی ابھی تک دور دراز علاقوں مےں اس کی کاشت کی جا رہی ہے اور افسوسناک پہلو ےہ ہے کہ تمام تر اقدامات اور انسداد منشےات کےلئے کی جانے والی کوششوں کے باوجود منشےات کے فروغ اور اس کے عادی لوگوں مےں کمی واقع نہےں ہو سکی اور نہ ہی حکومتی کوششےں انسداد منشےات مےں نتےجہ خےز اور بار آور ہو سکےں ۔دراصل منشےات کی تجارت اور اس کی فروخت مےں ملوث گروہوں کے ”با اثر شخصےات “ کے ساتھ مراسم ہےں جو انہےں اس گھناﺅنے دھندے مےں مکمل سپورٹ فراہم کرتے ہےں ۔اےسے مےں اس مکروہ کاروبار کا خاتمہ کےسے کےا جا سکتا ہے ۔منشےات کے خاتمے کےلئے صرف ان لوگوں کو پکڑنا اور سزا دلوانا جو اس نشے کے عادی ہےں اور ان کے پاس صرف گرامز مےں ہےروئن ،چرس ،آئس ےا افےم ہوتی ہے اور بڑے بڑے سمگلروں پر ہاتھ نہ ڈالنا جن کے لمبے ہاتھ ہےں اور ان با اثر مجرموں کو کےفر کردار تک نہ پہنچانا جو اس نشہ کا سبب اور بڑے بڑے کردار ہےں اس کی مثال اےسے ہی ہے جےسے برائی کے پودے کو جڑ سے نہ اکھاڑا جائے بلکہ اس کے پتوں کو جھاڑ دےا جائے ےا صرف شاخوں کو کاٹ دےا جائے ۔اگر ہم ملک و قوم کو درپےش نشہ جےسے سنگےن مسئلہ کا حل چاہتے ہےں تو موت کے ان سوداگروں کو کےفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے نےز معاشرے مےں اس شعور کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ زندگی اﷲ تعالیٰ کا بے بہا عطےہ ہے اسے منشےات کی نذر نہےں کرنا چاہےے ۔اس لعنت کے خاتمہ کےلئے ہر سطح پر حکومت سے تعاون اور سنجےدگی کے ساتھ اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri