کالم

مواصلاتی رابطوں کا عالمی دن اور درپیش چیلنجز

آج 17 مئی کو دنیا بھر میں مواصلاتی رابطوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے یہ دن نہ صرف جدید رابطہ کاری کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ انسانیت کو جوڑنے کے ایک طویل سفر کی یاد بھی دلاتا ہے اور ساتھ ساتھ ہمیں یہ موقع بھی فراہم کرتا ہے کہ ہم نے اس سفر میں کیا کھویا کیا پایا اور آگے کہاں جانا ہے- اس دن کی بنیاد 17 مئی 1969 کو رکھی گئی تھی تاکہ 1865 میں بین الاقوامی ٹیلی گراف کنونشن پر دستخط اور انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین کے قیام کو یاد رکھا جا سکے- سال 2025 اس حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ آئی ٹی یو اپنے قیام کی 160 ویں سالگرہ منا رہا ہے ایک ایسے وقت میں جب دنیا ڈیجیٹل ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے ہم اس بات کے معترف ہیں کہ رابطے کے ذرائع نے ہماری زندگیوں ،معیشتوں اور معاشروں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ آپ کے ہاتھ میں موجود موبائل فون سے لے کر آسمان کے مدار میں گردش کرتے سیٹلائٹس تک، جب بھی ہم کال کرتے ہیں پیغام بھیجتے ہیں، ریڈیو آن کرتے ہیں، ٹی وی دیکھتے ہیں، جی پی ایس استعمال کرتے ہیں، انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرتے ہیں یا موسم کی تازہ ترین معلومات چیک کرتے ہیں تو درحقیقت ایک عالمی نیٹ ورک کی خدمات پر انحصار کر رہے ہوتے ہیں جو بہت ہی منظم مربوط اور بیک وقت پیچیدہ بھی ہے – ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے حوالے سے اقوام متحدہ کی خصوصی ایجنسی کے طور پرآئی ٹی یو دنیا کو آپس میں جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے چاہے وہ سپیکٹرم مینجمنٹ ہو عالمی معیارات کا تعین یا ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنے کی کوششیں ہوں-
1865 میں ٹیلی گراف سے شروع ہونے والا یہ سفر آج محض سادہ پیغام رسانی تک محدود نہیں رہا بلکہ دنیا میں رابطے ترقی اور ایجادات کے نئے دریچے روشناس کرا رہا ہے- آج موبائل ٹیکنالوجیز اور سروسز دنیا بھر میں سات ارب سے زائد کنکشن کی حامل ہیں اگر آئی او ٹی ڈیوائسز کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد 13.7 ارب سے تجاوز کر رہی ہے یہ خدمات عالمی جی ڈی پی میں تقریبا 5.8فیصد حصہ ڈال رہی ہیں جو 2030 تک8.4 فیصد شرح سے 11 ٹریلین ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے- دنیا کی آبادی اس وقت کم و بیش 8.2 ارب نفوس پر مشتمل ہے جن میں 42 فیصد دیہی اور 58 فیصد شہری افراد شامل ہیں جبکہ صنفی تناسب کے لحاظ سے ان میں 49.73فیصد خواتین اور 50.27فیصد مرد حضرات ہیں۔ پاکستان میں ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبہ میں نمایاں ترقی دیکھنے کو ملی ہے آج ملک بھر میں 190ملین سے زائد موبائل صارفین موجود ہیں جبکہ 59.83فیصد شرح کے ساتھ 147 ملین صارفین موبائل اور فکس براڈ بینڈ کی سہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی ریگولیٹری اقدامات کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل خلا کو پر کرنے کے لیے قومی و عالمی اداروں اور تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ پاکستان میں پائیدار ڈیجیٹل ترقی کے اہداف کو ممکن بنایا جا سکے۔ آج دنیا میں موبائل کنکشنزکی تعداد عالمی آبادی سے تجاوز کر رہی ہے یہ حیرت انگیز حقیقت بظاہر ترقی کی علامت دکھائی دیتی ہے لیکن کیا درحقیقت ہم بامقصد اور مساوی شمولیت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ، اگرچہ دنیا میں اربوں ڈیجیٹل ڈیوائسز استعمال ہو رہے ہیں مگر اس کے باوجود لاکھوں خواتین اور لڑکیاں خصوصا کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں آج بھی آن لائن نہیں ہیں۔ عالمی سطح پر 70 فیصد مرد حضرات انٹرنیٹ استعمال کررہے ہیں جبکہ خواتین کا تناسب 65 فیصد ہے اس فرق کا مطلب ہے کہ دنیا بھر میں 189 ملین مرد خواتین کے مقابلے میں زیادہ انٹرنیٹ استعمال کررہے ہیں۔
آئی ٹی یو کے مطابق سال 2024 میں خواتین کے موبائل انٹرنیٹ استعمال کرنے کی شرح مردوں کے مقابلے میں 17 فیصد کم ہے- دیہی علاقوں اور پسماندہ طبقات میں یہ خلیج مزید وسیع ہو جاتی ہے جہاں انفراسٹرکچر کی کمی، سماجی رکاوٹیں اور ڈیجیٹل مہارت کی قلت جیسے عوامل کار فرماہیں۔ اس ڈیجیٹل محرومی کے اثرات محض عددی نہیں بلکہ یہ اجتماعی خوشحالی و ترقی، تعلیم و روزگار اور سماجی شمولیت میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس ڈیجیٹل صنفی خلا کو کم کرنے کے لیے فوری طور پر کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں جن میں خواتین کی رسائی کو ترجیح دینے کے لیے ٹیلی کام لائسنس کی شرائط میں تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں یونیورسل سروسز فنڈز کا استعمال کرتے ہوئے خواتین کو موبائل ڈیوائسز اور سم کارڈ کی ملکیت کے لیے سہولتیں اور مراعات فراہم کی جا سکتی ہیں دیہی اور پسماندہ علاقوں میں خاص طور پر خواتین اور بچیوں کے لیے ڈیجیٹل خواندگی کے پروگرام شروع کیے جا سکتے ہیں سول سوسائٹی، میڈیا اور تعلیمی اداروں کے ساتھ اشتراک کے ذریعے عوامی شعور اور روایتی تصورات میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے -یہ اقدامات نہ صرف آسان رسائی فراہم کرنے کے لیے اہم ہیں بلکہ ڈیجیٹل خود مختاری اور صنفی شمولیت کے حقیقی تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ناگزیر ہیں۔ آج کے جدید دور میں جہاں اطلاعات کی ترسیل نہایت تیز ہو چکی ہے، وہیں فیک نیوز یعنی جھوٹی خبروں کا پھیلاﺅ بھی ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور واٹس ایپ جیسے ذرائع نے جہاں دنیا کو قریب کیا ہے، وہیں غلط اور گمراہ کن خبروں کو بھی لمحوں میں عوام تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ -ڈیجیٹل ترقی کے ساتھ ایک اور سنگین مسئلہ جو تیزی سے ابھر رہا ہے وہ الیکٹرانک کچرا یعنی ای ویسٹ ہے- ٹیکنالوجی نے جہاں انسانی زندگی کو سہل بنایا ہے وہیں اس کی ماحولیاتی قیمت بھی چکانا پڑ رہی ہے صرف سال 2022 میں دنیا بھر میں 62 ارب کلو گرام ای ویسٹ پیدا ہوا ماحولیاتی آلودگی ،صحت کے مسائل اور معاشی نقصان کا سبب بن رہا ہے۔ ورلڈ ٹیلی کام ڈے محض ایک سالانہ تقریب نہیں بلکہ یہ ایک نادر موقع ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حقیقی ترقی کا پیمانہ یہ نہیں کہ کتنے لوگ جڑے ہوئے ہیں بلکہ یہ ہے کہ کتنے لوگ بااختیار ہوئے ہیں ان اہداف کی تکمیل کے لیے ایک ایسے ایکشن پلان کا خاکہ پیش کرنا ضروری ہے جو قلیل مدتی ، وسط مدتی اور طویل مدتی سفارشات پر مشتمل ہو۔ جہاں سینسروں، روبوٹوں کا رابطہ جو مصنوعی ذہانت کی مدد سے انجام پائے گا کے ثمرات سے تمام طبقات بلا تفریق و تقسیم مستفید ہو سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے