کالم

موجودہ حالات کا قصور وار کون ؟

اس وقت ملک بے شمار بحرانوں کی زد میں ہے یہ بحران اپنے پیدا کردہ ہیں ۔جس کی وجہ سے سبھی اداروں کا برا حال ہے ۔ ہر ادارہ دوسرے ادارے پر انگلیاں اٹھا رہا ہے تنقید کا نشانہ بنا رہا مگر اپنا اپ انہیں دکھا نہیں دیتا ۔ایسا سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوتا ہوا دکھا دے رہا ہے ۔جس سے سبھی پریشان ہیں۔ بابا کرمو کا کہنا ہے ’جب تک عام آدمی انسان نہیں بنتا پاکستان کے حالات بدل نہیں سکتے ۔ باباکرمو کہتا ہے کوئی مانے یا نہ مانے اس ملک میں سب سے بڑا فراڈیا دو نمبر کاروبار کرنے والا جھوٹا سب سے بڑا چور عام آدمی اور اس کا سیاسی لیڈر ہے۔ یہ عام آدمی انتہائی بے شرم ڈھیٹ اور بد دیانت ہے!یہ عام آدمی سیاست میں ہے نہ اسٹیبلشمنٹ میں!یہ نہ بیورو کریٹ ہے نہ جج ہے اور نہ جرنیل!مگر ان سب کے قریب رہتا ہے اوریہ عام لوگوں کا سب سے بڑا دشمن ہے یہ عام ادمی چھوٹے بڑے سبھی کے کام کرتا ہے۔ پھل بیچتا ہے تو جان بوجھ کر گندے پھل تھیلے میں عام ادمی کو دیتا ہے۔ یہ موٹر سائیکل چلاتا ہے تو پیدل چلنے والوں اور گاڑیاں چلانے والوں کے لیے خدا کا عذاب بن جاتا ہے۔ یہ ویگن بس ٹریکٹر ٹرالی اور ڈمپر چلاتا ہے تو موت کا فرشتہ بن جاتا ہے۔یہ سرکاری دفتر میں بیٹھتا ہے تو سانپ کی طرح پھنکارتا ہے اور بچھو کی طرح عام ادمی کو ڈستا ہے۔ یہ دفتر سے نماز کے لیے جاتا ہے تو واپس سیٹ پر نہیں آتا۔ آپ کسی سرکاری دفتر جائیے بورڈ لگا ہو گا ” نماز کا وقفہ ہے۔ یہ وقفہ کب ختم ہو گا؟ کسی کوکچھ معلوم نہیں۔یہ عام آدمی دکاندار کی شکل میں جعلی دو نمبر اشیا سیل کرتا ہے گدھے کتے کا گوشت مردہ مرغی اپنے جیسوں کو کھلاتا ہے ۔ گاہکوں کو بے وقوف بناتا ہے صبح جوتے خرید کر شام کو واپس کرنے جائیے، نہیں لے گا۔ واپس کرنا تو دور کی بات ہے تبدیل تک نہیں کرے گا!اس کا گاہک بھی عام آدمی ہے۔ وہ دکاندار سے بھی زیادہ فریبی ہے۔ چیز اچھی خاصی استعمال کرکے واپس یا تبدیل کرنے آئے گا۔یہ جب امریکہ جاتا ہے تو وہاں بھی یہ عام ادمی اپنی نشاخت کراتا ہے ۔ مہمان آئیں تو بڑے اسٹوروں سے سے نئے گدے (میٹریس)خریدتا ہے۔ مہمان چلے جائیں تو جا کر واپس کر آتا ہے۔ یہ عام آدمی امریکہ انگلستان میں گھر سے باہر نکلے تو وِیل چیئر پر ہوتا ہے۔ گھر کے اندر ہو تو چھلانگیں لگاتا ہے ۔عام آدمی صحت مند ہونے کے باوجود بھیگ مانگتا ہے۔یہ عام آدمی دو کروڑ مکان کی تعمیر پر خرچ کردیتا ہے مگر گھر کے سامنے ٹوٹی ہوئی سڑک پر بجری نہیں ڈلواتا۔ یہ عام آدمی گھر بناتا ہے تو گلی کا کچھ حصہ گھر میں شامل کر کے باغیچہ بنا لیتا ہے۔ دکان ڈالتا ہے تو نہ صرف فٹ پاتھ بلکہ آدھی سڑک پر اپنا سامان رکھتا ہے۔ یہ عام آدمی ناجائز تجاوزات کی شکل میں جو فائدہ اٹھا رہا ہے اس کا حساب لگائیے تو بڑے شرفا کی مبینہ چوری سے ہزار گنا بڑی چوری ثابت ہو گی ۔یہ عام آدمی گیس کے محکمے میں ملازم ہو تو رشوت لے کر ناجائز چوری چھپے گیس کنکشن دیتا ہے۔ بجلی کے محکمے میں جائے تو گھر بیٹھ کر میٹر ریڈنگ کرتا ہے۔ ٹیلی فون آپریٹر لگے تو فون ہی نہیں اٹھاتا۔ آزما لیجیے۔ یہ عام آدمی ہی ہے جس نے سیاست دانوں کی عادتیں بگاڑی ہیں۔ یہ خوشی سے ان سیاست دانوں کی ان کے بچوں کی ان کے خاندانوں کی غلامی کرتا ہے ۔ یہ ساری زندگی ان کے جلسوں میں دریاں بچھاتا ہے۔ جھنڈے اٹھاتا ہے نعرے لگاتا ہے۔ ان کی گاڑیوں کے ساتھ دوڑتا ہے۔ ان کی حمایت میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے جھگڑتا ہے یہاں تک کہ ان سے تعلقات توڑ دیتا ہے مگر اپنی اور اپنے کنبے کی حالتِ زار پر رحم کرتا ہے نہ سیاست دانوں سے اپنے حقوق مانگتا *غربت نسل در نسل اس کے خاندان میں راج کرے گی مگر یہ فخر سے کہتا رہے گا کہ ہم اتنی نسلوں سے اس جماعت کے ساتھ ہیں۔ان کے لئے کام کر رہے ہیں۔ یہی عام آدمی ہے جو سیاست دانوں کے کبیرہ گناہوں کا جواز تراشتا ہے اور ان کی غلطیوں پر غضبناک ہونے کے بجائے ان کا دفاع کرتا ہے۔**یہ عام آدمی اپنے جیسے عام آدمیوں کو اذیت پہنچاتا ہے۔ یہ عام ادمی بیٹے کی شادی کرے تو لڑکی والوں سے جہیز مانگتا ہے۔ بیٹی کی شادی کرے تو اسلام کا درس دیتا ہے ۔مسجد میں نماز پڑھنا شروع کرتا ہے تو مولوی صاحب کو اپنا ملازم سمجھتا ہے۔ تجارت کرتا ہے تو فراڈ کرتا ہے۔کسی کے گھرمیں ملازم ہو تو مالک کے ساتھ مخلص نہیں۔ کسی کو اپنا ملازم رکھے تو اس کے کھانے پینے اور لباس کا خیال نہیں رکھتا۔ پیروں فقیروں کے پیچھے بھاگتا ہے مگر گھر میں ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا۔*یہ ہے وہ عام آدمی جو چاہتا ہے کہ عمران خان نواز شریف زرداری اور چودھری سب کے سب راتوں رات عمر بن عبد العزیز بن جائیں۔رات دن ان پر تنقید کرتا ہے۔ اسے پورا یقین ہے کہ اس ملک میں اگر کوئی راہِ راست پر ہے تو صرف وہی ہے اور باقی سب کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ اسے یہ بھی یقین ہے کہ سیاست پر مذہب پر ملکی نظام پر امریکہ پر اس کا کہا حرفِ آخر ہے۔ وہی بلند ترین اتھارٹی ہے۔ وہ بہت خلوص سے کہتا کہ اگر ملک کو اس کی تجاویز کے مطابق چلایا جائے تو دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس دن یہ عام آدمی آدمی سے انسان بن گیا تو اہلِ سیاست سے لے کر انصاف کے ایوانوں تک سب ٹھیک ہو جائیں گے مگربابا کرمو کو اس کے انسان بننے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔عام آدمی وکلا کے نمادے بھی ہیں جو کمپیوٹر سے مرضی کے پلاٹ اپنی مرضی کے رزلٹ لیتے ہیں ۔ جو وکیل نہیں انہیں بھی پلاٹ دیتے ہیں ۔ اپنے ساتھی وکیل کو ہتکڑی لگوا دیتے ہیں ججوں کا ساتھ دیتے ہیں ۔ پھر قانون کی بات کرتے ہیں ۔اس لئے یہ ایسا کرتے ہیں کہ یہ بھی عام آدمی ہیں جنہیںنمازیں عمرے روزے ججز کے فیصلے بھی ٹھیک نہیں کر سکتے اس لئے کہ انہیں پتہ ہے ملک میں این ہے قانون کو نافذ کرنے والے اس پر خود عمل نہیں کرتے ۔عام آدمی جانتا ہے کہ یہاں لیڈر بنتے نہیں بنانئے جاتے ہیں۔ انہیں باہر والے اپنے ایجنڈے کےلئے عوام پر مسلط کرتے ہیں پھر لانے والے اپنی مرضی سے ملک کو چلاتے ہیں ۔جب تک سیاست دان فارن میڈ ہو نگے تو وہ فارن والوں کی ہی بات مانیں گے انہی کے کام کریں گے ملک کو لبنان بنائے گے ۔عوام کو انکھیں دکھائے گے اداروں کو بد نام اور کمزور کریں گے۔ جب تک ملک میں سلیکشن سے حکمران لانا بند نہیں ہونگے عوام کو ووٹ کی طاقت سے محروم رکھیں گے عدالتوں کو انصاف دینے نہیں دیں گے یہ سیاسی فیصلے کریں گے تو یہ ملک ایسے ہی چلتا رہئے گا۔ موجودہ ملکی حالات کو دیکھ کر بابا کرمو کہتا ہے فیصلے ہو چکے ہیں کہ.ہوگا کیا. جیسے ماضی میں اداروں کے بڑے بے نقاب ہوئے اب یہ بھی بے نقاب ہو رہے ہیں۔ملک کو لبنان جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ عام ادمی سے گزارش ہے کہ یہ بڑوں کی لڑا بڑوں کے کہنے پر حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں تم اپنی فکر کرو اپنے اپ کو ٹھیک کرو اور دعا کرو ،اللہ ہمیں برے وقت سے بچائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے