غیر جانبدار مبصرین کے مطابق یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ سال 2025 بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک کڑا امتحان ثابت ہوا، جہاں بلند دعوؤں، اسٹریٹجک خود نمائی اور عالمی قیادت کے خواب عملی سفارتی نتائج میں ڈھلتے دکھائی نہیں دیے ۔اسی ضمن میں معروف بھارتی اخبار دی ہندو کے ایک حالیہ مضمون کے مطابق، جس کی مصنفہ سُہاسِنی ہیں، 2025ء میں نریندر مودی کی خارجہ پالیسی کو متعدد سفارتی محاذوں پر سنگین چیلنجز اور نمایاں ناکامیوں کا سامنا رہا ۔ یاد رہے کہ سُہاسِنی ایک معروف بھارتی پرنٹ اور ٹیلی وژن صحافی ہیں، جو ”روزنامہ دی ہندو” میں بطور ڈپلومیٹک ایڈیٹر خدمات انجام دے رہی ہیں اور بھارت کی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی امور پر مستند تجزیہ نگار کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ **دی ہندو** اور **دی ڈیلی ٹیلی گراف** جیسے معتبر بین الاقوامی اخبارات کے تجزیات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بھارت کی ڈپلومیسی ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکی ہے جہاں بیانیہ سازی اور حقیقت کے درمیان فاصلہ واضح طور پر نمایاں ہو گیا ہے۔ مبصرین کے مطابق 2025ء وہ سال تھا جب بھارت کی خارجہ پالیسی میں موجود کمزوریاں عالمی سطح پر کھل کر سامنے آئیں۔نریندر مودی نے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کو ایک ابھرتی عالمی طاقت کے طور پر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی۔”وشو گرو”کا نعرہ، جی20 کی میزبانی، کواڈ اور دیگر فورمز میں فعال شرکت—یہ سب اقدامات ایک مضبوط عالمی امیج بنانے کیلئے تھے۔ تاہم **دی ہندو** کے تجزیے کے مطابق سفارت کاری محض اسٹیج مینجمنٹ، تصویری ملاقاتوں اور جارحانہ بیانات سے آگے کا تقاضا کرتی ہے۔ 2025ء میں بھارت کو اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑا کہ عالمی سیاست میں اعتماد، تسلسل اور متوازن رویہ بنیادی ستون ہوتے ہیںجو بھارتی پالیسی میں بتدریج کمزور پڑتے دکھائی دیے۔علاوہ ازیں امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مودی حکومت اپنی سب سے بڑی سفارتی کامیابی قرار دیتی رہی، مگر **دی ڈیلی ٹیلی گراف** کی رپورٹس کے مطابق 2025ء میں واشنگٹن اور نئی دہلی کے تعلقات میں سرد مہری کے آثار نمایاں ہوئے۔امریکا کی ترجیحات میں تبدیلی، جنوبی ایشیا میں توازنِ قوت پر نظرِ ثانی اور بھارت کی داخلی سیاسی صورتحال نے واشنگٹن کو محتاط رویہ اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ انسانی حقوق، مذہبی آزادیوں اور میڈیا پر دباؤ جیسے معاملات عالمی سطح پر بھارت کیلئے سفارتی بوجھ بنتے گئے، جس کا اثر براہِ راست اس کی عالمی ساکھ پر پڑا۔چین کے محاذ پر بھی مودی حکومت کو کسی بڑی کامیابی نہیں مل سکی۔سرحدی کشیدگی، لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر تناؤ اور مسلسل عسکری آمنا سامنا اس بات کی علامت رہا کہ بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔ **دی ہندو** کے مطابق چین کے ساتھ اسٹریٹجک عدم توازن نے بھارت کی خارجہ پالیسی کو دفاعی پوزیشن میں دھکیل دیا، جبکہ عالمی طاقتیں اس تنازع کو ایک غیر حل شدہ خطرے کے طور پر دیکھتی رہیں۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنوبی ایشیا میں مودی کی”پڑوسی پہلے”پالیسی بھی 2025ء میں اپنی افادیت کھوتی دکھائی دی۔ بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے ساتھ تعلقات میں اعتماد کا فقدان نمایاں رہا۔ خاص طور پر بنگلہ دیش کے ساتھ سیاسی اختلافات اور سرحدی معاملات نے بھارت کی علاقائی قیادت کے دعوؤں کو کمزور کیا۔ سفارتی ماہرین کے بقول، اگر کوئی ملک اپنے فوری پڑوس میں اعتماد قائم نہ کر سکے تو عالمی قیادت کا خواب محض ایک نعرہ بن کر رہ جاتا ہے۔پاکستان کے حوالے سے مودی حکومت کی پالیسی مسلسل سخت گیر اور تصادم پر مبنی رہی، مگر 2025ء میں یہ حکمتِ عملی بھی سفارتی سطح پر مطلوبہ نتائج دینے میںمکمل طور پر ناکام رہی۔عالمی برادری نے جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے پر زور دیا، جبکہ بھارت کا جارحانہ لب و لہجہ اسے اخلاقی برتری دلانے میں مددگار ثابت نہ ہو سکا۔ **دی ڈیلی ٹیلی گراف** کے مطابق خطے میں کسی بھی بحران کے دوران بھارت کو وہ غیر مشروط عالمی حمایت حاصل نہ ہو سکی جس کی توقع مودی حکومت کرتی رہی۔یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ مودی حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی کو داخلی سیاست کے ساتھ اس قدر جوڑ دیا کہ سفارت کاری ایک متوازن ریاستی عمل کے بجائے انتخابی بیانیے کا حصہ بن گئی۔ **دی ہندو** کے تجزیے میں کہا گیا ہے کہ جب خارجہ پالیسی داخلی مقاصد کے تابع ہو جائے تو اس کی ساکھ عالمی سطح پر متاثر ہوتی ہے۔ 2025ء میں یہی صورتحال بھارت کو درپیش رہی، جہاں عالمی شراکت داروں نے نئی دہلی کے اقدامات کو احتیاط سے پرکھنا شروع کر دیا۔روس اور مشرقِ وسطیٰ کے محاذ پر بھی بھارت کو محتاط سفارت کاری کی ضرورت تھی، مگر یہاں بھی واضح اسٹریٹجک سمت کا فقدان دکھائی دیا۔ ایک طرف مغرب کے ساتھ قربت کے دعوے ، تو دوسری جانب روس کے ساتھ توازن برقرار رکھنے کی کوشش—اس دو رخی پالیسی نے بھارت کو کسی ایک بلاک میں مضبوط مقام دلانے کے بجائے غیر یقینی کیفیت میں مبتلا رکھا۔ **دی ڈیلی ٹیلی گراف** کے مطابق، عالمی سیاست میں ایسے مبہم رویے اکثر سفارتی کمزوری کا باعث بنتے ہیں۔مجموعی طور پر 2025ء نریندر مودی کی ڈپلومیسی کے لئے بڑے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوا۔ بلند آہنگ بیانیہ، جارحانہ قوم پرستی اور اسٹیج پر چمک دمک وقتی طور پر توجہ حاصل کر سکتی ہے، مگر دیرپا سفارتی کامیابی کیلئے حقیقت پسندانہ پالیسی، ہمسایوں کے ساتھ اعتماد اور عالمی اصولوں کا احترام ناگزیر ہوتا ہے۔ **دی ہندو** اور **دی ڈیلی ٹیلی گراف** کی رپورٹس اسی نتیجے کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ مودی حکومت کی خارجہ پالیسی 2025ء میں ان معیارات پر پورا اترنے میں ناکام رہی ۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ اگر بھارت واقعی ایک ذمہ دار عالمی طاقت بننے کا خواہاں ہے تو اسے محض بیانیے سے آگے بڑھ کر عملی، متوازن اور جامع سفارتکاری اختیار کرنا ہو گی ۔ بصورتِ دیگر، 2025ء کی طرح آنیوالے برس بھی مودی ڈپلومیسی کی ناکامیوں کی فہرست میں شامل ہوتے رہیں گے اور بھارت کا عالمی کردار ایک سوالیہ نشان ہی بنا رہے گا۔

