بھارت میں مودی سرکار کی مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ پالیسیاں برقرار ہیں۔ بھارتی ریاست ہماچل پردیش میں ہندو انتہا پسندوں کی مسلمانوں کو مذہبی حقوق سے محروم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ رواں سال حکومت نے 15 مساجد کو غیرقانونی قرار دے کر مسمار کرنے کا حکم دیا۔ شملہ میں 5 مساجد کو عدالتی حکم پر شہید کیا گیا جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے۔ 2023 سے ہماچل پردیش میں مساجد کی مسماری کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ گزشتہ ہفتے ہندوتوا غنڈوں نے کندا گھاٹ میں قدیم مسجد کو تجاوزات کی آڑ میں شہید کیا جس سے وہاں کے مسلمان مسجد میں نماز پڑھنے سے محروم ہوگئے۔ مقامی مسلمان رہنماو¿ں نے مساجد کی مسماری کے اقدام کو مودی سرکار کی اسلام مخالف پالیسی قرار دیا۔ہماچل پردیش کے منڈی میں مسجد کا ایک حصہ منہدم کرنے کے معاملے میں مسلم فریق کو راحت مل گئی ہے۔ پرنسپل سکریٹری ٹی سی پی نے مسجد کے حصہ کو گرانے اور اس کی پرانی حالت میں بحال کرنے کے حکم پر روک لگا دی ہے۔ اس معاملے میں اگلی سماعت پرنسپل سکریٹری ٹی سی پی کی عدالت میں ہی ہوگی۔ اس دوران میونسپل کارپوریشن بھی آفس ریکارڈ کے ساتھ اپنا موقف پیش کرے گا۔ پرنسپل سکریٹری ٹی سی پی کے سامنے سماعت کے دوران مسلم فریق نے غیر قانونی تعمیر کی بات سے انکار کیا۔ مسلم فریق کے مطابق 2013 میں ہوئی بھاری بارش کی وجہ سے مسجد کا اہم اور بڑا حصہ گر گیا تھا، جسے اگست 2023 کو پھر سے بنایا گیا۔ مسلم فریق نے الزام لگایا کہ کمشنر کورٹ میں ان کا موقف صحیح طرح سے نہیں سنا گیا۔واضح ہو کہ ہندو تنظیموں نے گزشتہ 10 ستمبر کو میونسپل کارپوریشن کے باہر اور 13 ستمبر کو شہر میں مظاہرہ کر کے جیل روڈ میں واقع مسجد میں غیر قانونی تعمیر کا الزام لگاتے ہوئے اس کے حصہ کو منہدم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔20 ستمبر کو میونسپل کارپوریشن نے مسجد کا بجلی-پانی کا کنکشن کاٹ دیا تھا۔ منڈی میونسپل کمشنر کورٹ نے اس کے لیے مسجد انتظامیہ کمیٹی کو ایک مہینہ کا وقت دیا تھا جبکہ فیصلے کی کاپی 17 ستمبر کو مسجد کمیٹی کو دی گئی تھی۔10 اکتوبر کو پرنسپل سکریٹری ٹی سی پی نے کمشنر کورٹ منڈی کے فیصلہ پر روک لگانے کا حکم دیتے ہوئے اگلے 10 دنوں میں معاملے کی سماعت کرنے کے لیے کہا ہے۔ اس سے پہلے اہل اسلام مسلم ویلفیئر کمیٹی کے ساتھ میونسپل کارپوریشن کو اپنا موقف پیش کرنا پڑے گا۔ کمشنر منڈی میونسپل کارپوریشن ایچ ایس رانا نے فیصلے پر روک لگانے کا حکم ملنے کی جانکاری دی ہے۔بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی اور اس سے منسلک ہندو انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف تعصب اور ناروا سلوک کا سلسلہ جاری ہے۔جب سے بی جے پی اقتدارمیں آئی ہے تب سے بھارتی معاشرے میں نفرت اور مذہبی منافرت پھیلائی جارہی ہے۔مودی نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے بابری مسجد اور پھر کشمیر پر قبضہ کیا اس کے علاوہ بھی بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کو آئے روز جبر و ستم یا تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بھارت میں انتہا پسندی کے خلاف مسلمانوں کی آواز کو دبانے کے لیے مودی حکومت نے نئے ہتھکنڈے اپناتے ہوئے احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے گھر گرانا شروع کردیئے ہیں،اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز بھی وائرل ہوئی ہیں جس میں ہندو انتہا پسند پولیس کی نگرانی میں مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر کی مدد سے مسمار کررہے ہیں۔مودی سرکار نے بھارتی مسلمانوں کو زک پہنچانے کیلئے ایک اور نیا کام شروع کیا ہے کہ مسلمانوں کی املاک کو غیر قانونی قرار دے کر ان پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔ دو ماہ قبل دہلی میں ہوئے مسلمان ہندو لڑائی جھگڑے کو بنیاد بنا کر دہلی میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلائے گئے ہیں (جھگڑا دونوں جانب سے شروع ہوا لیکن نشانہ صرف مسلمانوں کی املاک کو بنایا گیا ہے جس پر دہلی ہائی کورٹ میں کیس بھی چل رہا ہے)۔ بلڈوزر کے نام پر سیاست بھارت کے ایک بڑے طبقے میں مقبول نظر آتی ہے۔ بی جے پی نے اسے مافیا کے خلاف کارروائی کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس نے چند ہندو عقیدے کے مجرموں کے مکانات اور املاک کو مسمار کیا ہے لیکن غیر متناسب طور پر متاثرین کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔کم از کم اتر پردیش میں، جہاں اس سال کی شروعات میں ریاستی انتخابات ہوئے تھے، ووٹروں نے بی جے پی کو فتح یاب کر کے اس طرح کی سیاست کا صلہ دیا۔ ان انتخابات میں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے خود کو بلڈوزر بابا کہا اور چند ریلیوں میں بلڈوزروں کی نمائش بھی کی۔ اس کے علاوہ اتر پردیش اور جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں موجود ہیں وہاں یہ عمل کیا جا رہا ہے تا کہ صدیوں کی غلامی کا بدلہ آج کے مسلمانوں سے لیا جا سکے۔ پھر لو جہاد اور مدارس کو بند کرنے کی حرکتیں بھی مودی کی منظم ہندوتوا مہم کا حصہ ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں مسلمانوں کے خلاف مظالم میں اضافہ ہوا ہے۔ گائے کے تحفظ اور ’لو جہاد‘ کے نام پر تشدد کے واقعات بارہا رونما ہوئے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جو مسلمانوں کے کھانے کے انتخاب، معاش اور رشتوں پر منفی اثر ڈالتے ہیں بہت سے سیاسی رہنماو¿ں اور وکلا نے ان اقدامات پر تنقید کی ہے لیکن تاحال اس کا کوئی معنی خیز نتیجہ نہیں نکلا، کئی افراد اور تنظیموں نے عدالت سے رجوع کیا ہے لیکن ان کی درخواستیں سماعت کے منتظر ہیں۔ مودی حکومت کے چند سالوں میں مذہبی تفریق اس قدر بڑھ چکی ہے جو پہلے کبھی نہ تھی۔ نیا بھر کے امن پسند ممالک،تنظیمیں اور دانشور اس بات کا بھر ملا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی صرف اس خطے کیلئے خطرہ نہیں بلکہ اگر اس دہشت گردی اور انتہا پسندی کو نہ روکا گیا تو دنیا کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ دنیا بھر میں تو انتہا پسند جماعتوں پر پاپندی لگا کر امن کیلئے کوششیں ہو رہی ہیں لیکن بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی انتہا پسند جماعت بر سر اقتدار ہے اور اسی جماعت کے رہنما جنہیں گجرات کے قصائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ بھارت کے وزیر اعظم ہیں۔