اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی ادارے ڈبلیو ایم او نے کہا ہے متواتر موسمیاتی تبدیلی کے باعث گزشتہ دنیا بھر میں پہلے سے کہیں زیادہ خشک سالی،سیلاب اور شدید گرمی کا بحران دیکھنے میں آیا ہے۔جس کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوں میں خطرات مزید بڑھ گے ہیں۔ عالمگیر موسمیاتی صوتحال سے متعلق ڈبلیو ایم او کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سال تاریخ کے گرم ترین سال تھے اور سطح سمندر میں اضافے،سمندری حدت اور گلیشئرز کے پگلا نے نئی بلندیوں کو چھوا ہے۔موسمیاتی تبدیلی اور اسکی ذمداری کے حوالے سے پاکستان کے لوگ سخت ناانصافی کا شکار ہیں۔ماہرین کا مطابق گذشتہ چند سالوں میں درختوں کی کٹائی عروج پر رہی جس سے ملک بھرمیں جنگلات کا رقبہ تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ادارجاتی تحقیقات کا مطابق کی دہائی سے ابتک جنگلات کی تعداد میں اضافے کے بجائے بتدریج کمی ہو رہی ہے جس کا اثر انسانوں، حیوانات اور چرند پرند پر پڑھ رہا ہے۔پاکستان میں زیادہ تر جنگلات آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختون خواہ میں ہیں جہاں پر محکمہ جنگلات میں کوئی ادارہ جاتی اصلاحات نہ ہونے کی بنا پر بتدریج جنگلات کی کٹائی جاری ہے۔ میری رائے کے مطابق جنگلات کی سب سے زیادہ کٹائی آزاد کشمیر میں ہو رہی ہے جہاں پر ٹمبر مافیا آزاد کشمیر کے لوگوں سے ان کا خون درختوں کی صورت میں چوس رہیں ہیں۔آزاد کشمیر کے جنگلات میں آپ کو کٹائی کیے ہوئے درخت اور آگ کے ذریعے نقصان پہنچائے ہوئے درخت کثرت سے ملیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے درخت ہماری زندگی ہیں انہیں بچانے کے لئے ہمیں اپنے راویوں میں تبدیلی لانا ہو گی ورنہ اس کے بے ہانک نتائج سے ہم خود کو نہیں بچا پائیں گے۔آزاد کشمیر اور پورے پاکستان میں جنگلات کا تیزی سے ختم ہونا ایک انتہائی اہم اور سنگین مسئلہ ہے لیکن اس کیلئے سنجیدگی حکومتی ایوانوں میں نظر نہیں آتی تاہم جب تک دور دراز علاقوں میں مقامی آبادی کو روزگار اور توانائی کے متبادل ذرائع نہیں دیے جاتے اس وقت تک جنگلات کی غیر قانونی کٹائی روکنا ممکن نہیں مزید حکومتی سطح پر ایسے اقدامات کیے جائیں جس میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ترغیب دی جائے جیسا کہ ہم ترقی یافتہ ممالک میں دیکھتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ہیں نہ ہی نئی بننے والی ہاسنگ سوسائٹیز اس کا خیال رکھتی ہیں اور نہ ہی عوامی سطح پر اس کے لیے اقدامات کیے جارے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں کہیں رقبے جو کا آبپاشی کے لیے جانے جاتے تھے اب وہاں پر رہائشی اور تجارتی مراکز قائم ہو چکے ہیں۔ مستقبل میں اگر ایسے غیر موافق موسمی حالات سے بچنا ہے تو قدرتی ماحول کو بر قرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے ہوں گے۔