جاتی عمرہ رائیونڈ میں پاکستانی سیاست کے بڑوں کی ایک بیٹھک آئینی ترمیمی مسودے پرسج چکی ہے جس میں وزیر اعظم پاکستان شہبازشریف ،نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار، صدر مملکت آصف علی زرداری ،قائد (ن) لیگ نوازشریف ،چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری ، مولانا فضل الرحمن ، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز ،گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر، وزیر داخلہ محسن نقوی ، صوبائی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب ، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، نوید قمر، مولانا اسدمحمود، مرتضیٰ وہاب، ڈاکٹر عاصم حسین، کامران مرتضیٰ، اسلم غوری شریک ہوئے۔ اس عشائیے کی سب سے اہم بات یہ رہی کہ آگئے مولانا چھاگئے مولانا تھے کہ کچھ کہا بھی نہیں او رسب کہہ بھی گئے۔اس موقع پر مولانا کی باڈی لینگویج بتارہی تھی کہ بات مکمل بنی نہیں ہے یہ سلسلہ جاری رہے گااور باقی موجود قائدین کا حال یہ تھا کہ دل ہے کہ بیٹھا جارہا ہے ،چلادواِک بیان ہی سہی مولانا کا، کہ کچھ بھرم رہ جائے اِن کا بھی باقی۔ مولانا کا انداز بتا رہا ہے کہ وہ آکر بھی سب پاگئے ہیں اور پی ڈی ایم انہیں بلا کر بھی ہر اِک نعمت سے ابھی بہت دور ہے۔ راقم الحروف سمجھتا ہے کہ پی ڈی ایم کی وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی خواہش پوری نہیں ہوگی۔ منزل پاتی دکھائی نہیں دیتی ہے ۔ہاں اگر اس پر کچھ ہوا بھی تو بمطابق پی ڈی ایم نہیں ہوگا بلکہ اس پہلے آئینی ترمیمی مسودے کے مکمل رد کے بعد مشترکہ قابل قبول ترامیمی مسودہ پر ہی اتفاق رائے ہو سکتا ہے جس پر پی ڈیم ایم سرکار کو وہ کچھ تو نہیں مل سکتا جس کی تمنا لے کر یہ بِل ©©”دیار غیر “ سے یہاں کچھ شخصیات تک پہنچا ہے ،ہاں پھر بھی اتنا سا فائدہ ضروردے سکتا ہے کہ تھوڑا بہت ہی کچھ عرصے کیلئے ان کی حکومت کو چلا دے ۔پی ڈی ایم سرکار اور مولانا کے درمیان اس آئینی ترمیمی مسودے پر پی ڈی ایم خیال مطابق وفاقی آئینی عدالت قیام ہونے سے رہا ،ہاں آئینی بنچ پر ایک ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔ کیونکہ مولانا سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ہوتے ہوئے ایک نئی وفاقی آئینی عدالت کا قیام انتہائی مضحکہ خیز ہے یہ نہیں ہو سکتا ہے،ہاں سپریم کورٹ کے تحت ایک آئینی بنچ بنایا جاسکتا ہے۔مولانا اور اس کی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ او رسنیٹر زکا اس ترمیمی مسودے پر شدید تحفظات ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ آئینی ترمیمی مسودہ کسی طور پر ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔وہ اس مسودے کی منظوری اور وفاقی آئینی عدالت کے قیام پر حکومت ساتھ کھڑے نہیں ہونگے۔ یہ حکومتی اور مولانا ملاقاتیں جو ہورہی ہیں کوئی خاص رنگ لانے والی نہیں ہیں بلکہ پی ڈی ایم کے رنگ میں بھنگ ہی ڈالنے والی بات ہے۔ پی ڈی ایم کو اس تین جماعتی ملاقاتوں سے وہ کچھ حاصل نہیں ہوگا جس کی وہ مولانا سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ ملکی سیاسی صورتحال میں پہلی بار ہورہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن تمام تر ہوئی آفروں ،پیشکشوں اور کالزکو مسلسل نظرا نداز کیے اب کے بار ڈٹ گئے ہیں او رکسی صورت بھی اس آئینی ترمیمی مسودے کے حق میں نہیں ہیں جو حکومت لے کر آئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن ایک جہاندیدہ سیاستدان ہیں ،پوری طرح بھانپ گئے ہیں کہ یہ آئینی ترمیمی مسودہ ملک و قوم کی بقا ءکیخلاف ہے اور ایک مخصوص ٹولے کی اجارہ داری کا سامان ہے ۔ اس لیے تب سے لے کر اب تک نہیں مان رہے ہیں۔ ان کو دیکھنے کے بعد کسی طور پربھی نہیں لگتا کہ وہ اس آئینی ترمیمی مسودے پر حکومت کے ساتھ جائیں گے۔ مولانا نے اپنا مسودہ پی ڈی ایم کو پیش کردیا ہے ،صرف اسی پر ہی وہ عمل چاہتے ہیں ، اس کے علاوہ اور کسی چیز پر نہیں آئیں گے۔ مولانا کی یہی وہ خوبی ہے کہ جو انہیں سیاست کا سلطان بنائے ہوئے ہے او رایک زرداری سب پر بھاری پر بھی حاوی رکھے ہوئے ہے۔ نظر تو یہی آرہا ہے کہ مولانا اب کے بار پی ڈی ایم پر خاصے اثر انداز ہونے والے ہیں اور سب کے کڑاکے نکال کررکھ دیں گے اور انہیں کچھ دیں گے بھی نہیں مگر وہ جو بہتر سمجھتے ہیں اس پر ضرور بات کریںگے۔ اپنے پورے سیاسی پیریڈ میں متعدد بار وزارتوں کا مزہ لوٹنے والے مولانا حلوے کے بہت شوقین ہیں ،اکثر اہم جگہوں پر مزے دار کھانے تناول فرماتے نظر آتے ہیں ۔ مگر اب کہ اس حکومت کو دئیے اپنے ”لولی پاپ“ پتلی کھیل تماشہ سے کیا نکال پائیں گے ،یہ دیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ پی ڈی ایم اورمولانا فضل الرحمن میل ملاقاتوں کا دﺅر ایک بار پھر سے عروج پر ہے ، دیکھتے ہیں کہ کیا بنتا ہے اور اس میں سے نکلتا کیا ہے اور کون منواتا ہے اپنی بات اور پی ٹی آئی یا پی ڈی ایم میں سے جیت کا سہراکس کے نام ہوگا ،آنےوالے چند روز میں مکمل واضح ہوجائے گا۔