کالم

مہنگائی کا جن بے قابو۔ عوام کے قلوب و اذہان مفلوج

مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے اور اس کی لپیٹ میں سب سے زیادہ وہ طبقہ آیا ہے جس کے پاس پہلے ہی وسائل محدود تھے۔ آج ملک کے گلی کوچوں میں، فٹ پاتھوں پر، چھوٹی دکانوں میں اور محنت کش بستیوں میں صرف ایک ہی آہ سنائی دیتی ہیبس اب جینا مشکل ہو گیا ہییہ جملہ اب ایک عام فقرہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک اجتماعی درد، ایک اجتماعی اذیت اور ایک اجتماعی شکست کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ غریب عوام کی حالت اس قدر بگڑ چکی ہے کہ ان کیلئے زندگی اب ایک مسلسل جدوجہد کا دوسرا نام بن گئی ہے۔، ایک ایسی جدوجہد جس میں جیت کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔کبھی دو وقت کی روٹی کا انتظام مشکل ہوتا تھا، اب ایک وقت کی روٹی بھی خواب لگتی ہے۔ آٹے، چاول، دال، گھی اور سبزیوں کی قیمتوں نے غریب کے بجٹ کو روند کر رکھ دیا ہے۔ جو مزدور روزانہ کی مزدوری پر گھر چلاتا تھا وہ اب مزدوری کے باوجود مایوسی سے دوچار دکھائی دیتا ہے۔اس کے بچوں کی آنکھوں میں بھوک کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں اور بچوں کی ماں کے ہاتھ خالی برتنوں پر لرزتے ہیں۔ پہلے لوگ کہتے تھے کہ’مہنگائی بڑھی ہے، اب لوگ کہتے ہیں کہ’ہم تو ختم ہو گئے ہیں۔ یہ وہ جملہ ہے جو کسی معیشت کی ناکامی سے زیادہ قوم کی مایوسی کی گواہی دیتا ہے۔بازار میں جائیں تو ہر دکاندار کے چہرے پر بھی بے بسی جھلکتی ہے۔ وہ بھی کہتا ہے کہ گاہک نہیں آتے، خریدنے والا کوئی نہیں، ہر کوئی صرف قیمت پوچھ کر چلا جاتا ہے۔ عام شہری کا معیارِ زندگی اتنا گر چکا ہے کہ اب وہ ضروریات کو بھی عیاشی سمجھنے لگا ہے۔ بچوں کیلئے دودھ لینا، دوائی خریدنا، بجلی کا بل دینا، یا کرایہ ادا کرنا،یہ سب کام اب کسی بڑی قربانی کے مترادف بن چکے ہیں۔ریڑھی والے سے لیکر رکشہ ڈرائیور تک، ہر شخص ایک ہی داستان سناتا ہے۔ ریڑھی والا کہتا ہے کہ سبزی لانے کیلئے کرایہ بڑھ گیا ہے، مال مہنگا ہو گیا ہے، لیکن گاہک کے پاس پیسے نہیں۔ رکشہ ڈرائیور کہتا ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھنے سے سواری نہیں ملتی، سواری ملے تو مناسب کرایہ دینے سے انکار کر دیتی ہے۔ہر طرف ایک عجیب سا خلا ہے، ایک بے بسی جو پورے معاشرے پر چھائی ہوئی ہے۔غریب کا بچہ جب اسکول نہیں جاتا، تو صرف تعلیم سے محروم نہیں ہوتابلکہ اپنے مستقبل سے بھی کٹ جاتا ہے۔ماں باپ جب بچے کو اسکول سے ہٹا کر کسی ورکشاپ پر بھیج دیتے ہیں تو دراصل وہ غربت کے جال میں ایک نئی نسل کو پھنسنے سے نہیں روک سکتے۔ یہ غربت صرف جسمانی بھوک نہیں بلکہ فکری اور اخلاقی بھوک بھی پیدا کر رہی ہے۔ معاشی دبا نے انسان کو اس حد تک مجبور کر دیا ہے کہ وہ ضمیر کی آواز سے زیادہ پیٹ کی آواز سننے پر مجبور ہے۔دوسری طرف وہ طبقہ ہے جس کیلئے مہنگائی محض ایک عدد ہے، ایک شماریاتی مسئلہ ہے۔ ان کیلئے آٹے کے تھیلے کی قیمت یا گھی کے کلو کا ریٹ بدلنے سے زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ان کے بچے اب بھی غیر ملکی اسکولوں میں پڑھتے ہیں، ان کے گھروں میں اب بھی روشنی کبھی بند نہیں ہوتی۔ مگر ان کے آس پاس وہی غریب محنت کش ہیں جن کی محنت سے یہ نظام چلتا ہے۔ وہ محنت کش جو صبح سویرے اٹھ کر دن بھر پسینہ بہاتا ہے، مگربڑی مشکل سے ایک وقت کی روٹی کا بندوبست کرپاتا ہے۔مہنگائی نے نہ صرف جسموں کو تھکایا ہے بلکہ ذہنوں کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔ غریب اب خواب دیکھنا چھوڑ چکا ہے ۔ کبھی وہ سوچتا تھا کہ محنت سے زندگی بدل جائیگی، اب وہ جان چکا ہے کہ یہ نظام اس کیخلاف ترتیب دیا گیا ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں امیر، امیرتر ہوتا جا رہا ہے، اور غریب صرف زندہ رہنے کیلئے سسک رہا ہے۔یہ صرف معاشی بحران نہیں، یہ انسانی بحران ہے۔ اس نے عزتِ نفس کو پامال کیا ہے۔ لوگ قرضوں میں ڈوب رہے ہیں۔کچھ اپنے جسم بیچنے پر مجبور ہیں، کچھ اپنی عزت، اور کچھ اپنی امیدیں ۔ کسی ماں کے پاس دوائی کے پیسے نہیں، کسی باپ کے پاس اسکول کی فیس نہیں۔ کہیں مزدور اپنی مزدوری مانگ کر ذلیل ہوتا ہے، کہیں ریڑھی والا بلدیہ کے ہاتھوں مار کھاتا ہے۔یہ سب وہ مظالم ہیں جنہیں ہم نے معمول سمجھ لیا ہے ۔ ریاست کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے کمزور شہریوں کی حفاظت کر ے مگر یہاں ریاست خاموش تماشائی بن چکی ہے۔ حکومتیں بدلتی رہیں، وعدے بدلتے رہے، مگر غریب کی حالت نہیں بدلی۔ ہر حکومت نے کہا کہ غریبوں کا خیال رکھا جائے گا مگر ہر بار سب سے زیادہ قربانی بھی غریب ہی نے دی۔ ٹیکس پالیسی ہو، بجلی کے نرخ ہوں، یا پٹرول کی قیمتیں،بوجھ ہمیشہ نچلے طبقے پر ڈالا گیا۔اگر آج اس ملک میں کوئی سب سے بڑی مظلوم اکائی ہے تو وہ غریب عوام ہیں۔ ان کی مزدوری کی قیمت نہیں، ان کے ووٹ کی طاقت کا کوئی احترام نہیں اور ان کے دکھ کی کوئی زبان نہیں۔ وہ صرف تب یاد آتے ہیں جب الیکشن قریب ہو، جب جلسوں میں نعرے لگانے ہوں یا جب حکمرانوں کو اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے چند راشن کے تھیلے بانٹنے ہوں مگر ان کیلئے کوئی پالیسی نہیں، کوئی تحفظ نہیں، کوئی امید نہیں ۔ مہنگائی کا یہ جن صرف اشیا کی قیمتیں نہیں بڑھا رہایہ لوگوں کے اندر کی انسانیت کو بھی نگل رہا ہے۔ یہ معاشرہ اگر اسی طرح چلتا رہا تو امیر اور غریب کے درمیان خلیج ایک ایسی دیوار بن جائے گی جس کے پار کوئی نہیں جا سکے گا۔ بھوک جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ انصاف، قانون اور اخلاقیات سب کو نگل لیتی ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ اس ملک کے اربابِ اختیار، پالیسی ساز اور معاشی ماہرین اس درد کو سمجھیں جو فٹ پاتھ پر بیٹھے مزدور کے دل میں ہے، اس خوف کو محسوس کریں جو اس ماں کے دل میں ہے جو بچوں کو بھوکا سلا دیتی ہے۔ مہنگائی کے خلاف محض دعوے یا بیانات نہیں، عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ انصاف پر مبنی معیشت ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے قوم کو اس عذاب سے نکالا جا سکتا ہے۔اگر ہم نے آج اس طبقے کی آواز نہ سنی، تو کل یہ آواز شور بن جائیگی، ایک ایسا شور جو کسی قانون، کسی حکومت اور کسی وعدے سے دبایا نہیں جا سکے گاکیونکہ جب بھوک بولتی ہے، تو دنیا کی کوئی طاقت اسے خاموش نہیں کر سکتی۔یہ ملک اب صرف بھوک سے نہیں مر رہا، مایوسی سے مر رہا ہے۔وہ مایوسی جو انسان کو خواب دیکھنے سے روک دیتی ہے،وہ مایوسی جو امید کا گلا گھونٹ دیتی ہے اور وہ مایوسی جو قوموں کو مٹا دیتی ہے ۔ ریاست کا فرض تھا کہ وہ سہارا دیتی مگر ریاست اب خود اندھیروں میں گم ہے۔وہ اندھیرے جن میں غریب کی آہیں، مزدور کی سسکیاں، اور ماں کی فریادیں سب گم ہو جاتی ہیں۔یہ کہانی کسی ایک گھر کی نہیں، یہ پوری قوم کے رونے کی کہانی ہے ۔ ایک ایسی قوم جو اب صرف سانس لیتی ہے،مگر جیتی نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے