کالم

میاں چنوں۔۔۔!

khalid-khan

میاں چنوں ضلع خانیوال کی ایک تحصیل ہے اور یہ لاہور سے245 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ شہرصوفی بزرگ میاں چنوں سہروردی، سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری غلام حیدر وائیں شہید اورایمازون کے باعث معروف ہے۔ 1918ءمیںانگریزبائیرجر نے اس شہر کی بنیاد رکھی تھی۔میاں چنوں کا علاقہ بہت زرخیز ہے اور میاں چنوں خوبصورت اور صاف ستھرا شہر ہے۔اس میں سرکاری طور پر تعلیمی وطبی مراکز، غلہ و فروٹ منڈیاں، پبلک لائبریری ،پارک ، مسجد ، کلیسا اور گردوارہ بنائے گئے تھے۔بھارتی ادیب خشونت سنگھ کا بچپن میاں چنوں کی گلیوں میںگذرا۔تاریخی شہرتلمبہ میں قیام ناگزیر تھا، چند لمحات کےلئے وہاں ٹھہرے کیونکہ وہاں پر طارق محی الدین ہاشمی اور ملک فصیل بھٹہ کی زیارت کیے بغیر خاکسارکے لئے آگے جانا ممکن نہیں تھا ۔ جو بھی ان سے ملتاہے،وہ ان کا گرویدہ بن جاتا ہے۔تلمبہ سے میاں چنوں کا فاصلہ تقریباً سولہ کلومیٹر ہے اور اس شہر کا نام صوفی بزرگ میاں چنوں کے نام سے رکھا گیا۔ احمد نواز خان اورعابد حسین خان کے ہمراہ میاں چنوں کے مزار پر حاضری دی۔حضرت میاں چنوں جھنگ کے علاقے میں پیدا ہوئے تھے، آپ بلوچ قوم سے تھے۔ آپ کا نام چنوں بلوچ تھا۔ آپ شباب کو پہنچے توہم عمر جوان احباب کے ہمراہ چوری اور راہزنی کرتے تھے،آپ علاقے کے معروف چور اور راہزن تھے۔اس وسیب میںیہ دستور تھا کہ جب تک جوان چوری، راہزنی اور ڈکیتی نہ کرتا،اس کے سر بزرگ پکڑی نہیں باندھتے تھے۔اس وقت راہزن کو عزت دار سمجھا جاتا تھا ،جیسے پنجابی کا مقولہ ہے کہ "لُچا سب توں اُچا”۔یہ حیرت کی بات نہیں ہے بلکہ عصر حاضر میں بھی یہی سب کچھ ہوتا ہے، سب کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں مجرم پیشہ اورچور ہے لیکن اس کے باوجود اس کو ووٹ دیتے ہیں ، اس کولیڈر مانتے ہیں اور اس کو عزت دار بھی سمجھتے ہیں۔ بحرحال انسان جس ماحول میں رہتا ہے،پھراس کے رسم ورواج اور پیمانے اس کو برے یا غلط نہیں لگتے ۔ کہتے ہیں کہ غیاث الدین بلبن کے عہد میںموجودہ میاں چنوں کے مقام پر ایک گاﺅں تھا چونکہ یہ علاقہ بہت زرخیز تھا، فصلیں بکثرت پیدا ہوتیںتھیں ،اس لئے یہاں پر بہت سی قومیں آباد تھیں، حضرت میاں چنوں کے والد ماجد نے جھنگ سے یہاں ہجرت کی۔ایک دن چنوں بلوچ اور ان کے دوست عبدالمجید جنگل میں سے گذررہے تھے کہ ان کی ملاقات حضرت غوث بہاﺅ الدین زکریا ملتانیؒ سے ہوئی اور انھوں نے ان سے پینے کے لئے پانی طلب کیا لیکن ان کے مشکیزے پانی سے خالی تھے۔ان دونوں نے بزرگ کےلئے جنگل میں پانی تلاش کیا، کافی تگ ودو کے بعد پانی ملا،جب وہ واپس آئے تو بزرگ وہاں سے چلے گئے تھے،پھر انھوں نے قدموں کے نشانات کا تعاقب کیا، کم وبیش پانچ کلومیٹر مسافت کے بعد حضرتت غوث بہاﺅ الدین زکریا ملتانیؒ ایک ٹیلے پر تشریف فرماتھے اور ان کے پاس ہی ایک چشمہ بہہ رہاتھا۔میاں بلوچ اور ان کے بیلی عبدالمجیداس کرامت سے متاثر ہوئے ، دونوں برے کاموں اور بداعمال سے توبہ تائب ہوئے، حضرت غوث بہاﺅ الدین زکریا ملتانیؒ کے ہاتھوں پر بیعت کی۔انھوں نے آپ دونوں کو گلے لگایا اور ان کےلئے خصوصی دعاکی۔حضرت غوث بہاﺅ الدین زکریا ملتانیؒ نے چنوں بلوچ کا نام میاں چنوں اور ان کے دوست کا نام میاں عبدالمجید رکھا۔اس کے بعد دونوں نے تمام زندگی اطاعت اللہ رب العزت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میںگذاری۔کہتے ہیں کہ جب برصغیر پاک وہند میں ریلوے لائن بچھائی گئی تو یہاں پر1910ءمیںریلوے اسٹیشن بنایا گیا، انگریزوں نے شہر کے امیر ترین شخص اُجل سنگھ کے نام پر بورڈ لگایا تو قدرتی طور پر بورڈ پر میاں چنوں لکھا گیا، باربار نگرانی کی گئی مگر ہر مرتبہ ویسا ہی ہوا۔آخر کا ر اس شہر کا نام میاں چنوں رکھا گیا۔اس کے علاوہ بھی متعدد کرامات آپ ؒسے منسوب ہیں۔ آپؒ کا عرس ہرسال 9، 10 اور 11ساون کو نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ حضرت میاں چنوںؒ کے مزار کے بعدہم دروریش وزیراعلیٰ چودھری غلام حیدر وائیں شہیدکے مزار پر چلے گئے۔ آپ کا مزارگورنمنٹ اسلامیہ ڈگری کالج میاں چنوں کے احاطے میں ہے، اس لئے کالج میں سے ان کے مزار پر جانا پڑتا ہے۔غلام حیدر وائیں شہید کے مزار کےلئے ایک علیحدہ دروازہ بھی ہے لیکن کالج انتظامیہ نے چند وجوہات کی بنا پر وہ گیٹ مقفل کیا ہے۔ اس دن کالج میں ایک فنگشن تھالیکن ہمیں مزار پر جانے دیا گیا۔ان کا مزار خوبصورت اور قابل دید عمارت پر مشتمل ہے۔چودھری غلام حیدر وائیں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ہندوستان کے بٹوارے کے بعد پاکستان ہجرت کی۔ آپ 1990ءسے 1993ءتک صوبہ پنجاب کے 12ویں وزیراعلی رہے۔آپ کوانتخابی مہم کے دوران 29ستمبر1993ءکوقتل کیا گیا۔آپ فرشتہ صفت انسان تھے،آپ نے وزیراعلی بن کر بھی اپنا گھر نہیں بنایا ،آپ کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔میاں چنوں میں پروفیسرغضنفر عباس مگسی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی،اس بیٹھک میں پروفیسر عارف حبیب خٹک ، سابق چئیرمین شفقت حسین اور بیرسٹر توقیر شامل تھے۔ پروفیسرغضنفر عباس مگسی ایک عظیم انسان ہیں، انھوں نے سینکڑوں مریضوں کو خون دلوایاہے، اپنے خاندان کے25افراد کو جیب خاص سے تعلیم دلوائی کیونکہ اپنے رشتے داروں کا سب سے زیادہ حق ہے۔اس کے علاوہ بھی کافی سماجی کام کیے ہیں۔پروفیسر عارف حبیب خٹک کی صاحبزادی عارفہ حبیب خٹک امتحان کی تیاری کے سلسلے میں پروفیسر غضنفر عباس مگسی کے گھر میں رہتی تھی۔ پروفیسر غضنفر عباس مگسی نے عارفہ حبیب خٹک کے بارے میں بتایا کہ وہ ائےرکنڈیشن میںسونے کی بجائے عام پنکھے کے کمرے میں مطالعے کو ترجیج دیتی تھی اور وہ رات بارہ بجے سوتی تھی اور تین بجے بیدار ہوکر محو مطالعہ ہوتی تھی یعنی وہ چوبیس گھنٹے میں محض تین گھنٹے آرام کرتی تھی۔ یقینا جو لوگ محنت کرتے ہیں،وہ کامیاب ہوجاتے ہیں۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ بھی رات گئے تک مطالعہ کیا کرتے تھے۔پروفیسر غضنفر عباس مگسی ریٹائرمنٹ کی زیست سے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔اللہ رب العزت نے ان کو دوبیٹیاں عطا کیں،اس لحاظ سے بھی وہ خوش نصیب ہیں کیونکہ بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں۔ میاں چنوں نے کافی نامور پیدا کیے ہیں،پھر کھبی اتفاق ہوا تو ان سے بھی ملاقات کریں گے اور ان کا تذکرہ بھی ہوگا۔تریشر مشین میاں چنوں کی ایجاد ہے۔ایمیزون نے مئی2021ءمیں پاکستان کو اپنے سیلرز لسٹ میں شامل کیا۔ امریکہ کے ایک تحقیقی ادارے کے مطابق ای کامرس پلیٹ فارم ایمیزون میں پاکستانی سیلرز کا تعلق بڑے شہروں کی بجائے میاں چنوں اور ساہیوال سے ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے