اقتدار کی راہداریوں میں اصول اور اخلاقیات اکثر صرف کتابوں کی زینت ہوتے ہیں۔ میدانِ سیاست میں وہی کامیاب ہوتا ہے جو موقع پہچانتا ہے حالات کو اپنے حق میں موڑتا ہے اور مخالف کو چال سے مات اور شکست دیتا ہے۔ پانچ سو برس پہلے فلورنس کا ایک شخص نکولو میکیائویلی اسی حقیقت کو الفاظ میں ڈھالتا ہے اور دنیا کو ایک ایسا نسخہ دیتا ہے جو آج بھی طاقت کے ایوانوں میں دھڑکتا ہے۔ اس کی کتاب دی پرنس صرف شہزادوں کیلئے نہیں بلکہ ہر اس شخص کیلئے رہنمائی ہے جو اقتدار چاہتا ہے، چاہے وہ بادشاہ ہو، وزیر، جج، سرمایہ دار، بیوروکریٹ یا آج کا منتخب نمائندہ۔میکیاویلی کا ماننا تھا کہ حکمران کو دوستوں سے زیادہ معاشرے میںخوف پیدا کرنا چاہیے، کیونکہ محبت وقتی اور خوف پائیدار ہے۔ عوام کو خوش رکھنے کا دعویٰ اور مخالفین کو کچل دینے کی حکمتِ عملی، یہ وہ دو دھار تلوار ہے جو حکمران کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ اصول صرف تب تک رہیں جب تک فائدہ دیں، اور جب اقتدار خطرے میں ہو تو اصول قربان کر دیے جائیں۔ اس کے نزدیک کامیاب حکمران وہ ہے جو شیر کی طاقت اور لومڑی کی چالاکی یکجا کر لے۔اگر ہم یہ آئینہ پاکستان کے سامنے رکھیں تو عکس حیران کن طور پر واضح ہے۔ یہاں سرمایہ دار سیاست میں سرمایہ لگا کر پانچ سال بعد منافع وصول کرتا ہے، جاگیردار مزارعین کے ووٹوں کو بوریوں میں بند کر کے لاتا ہے، بیوروکریٹ اپنے قلم سے ہر قانون کو موڑ دیتا ہے اور جج انصاف کے ترازو کو طاقتور کے پلڑے میں تول دیتا ہے۔ پارلیمنٹ کی میز پر بحث کم اور سودے بازی زیادہ ہوتی ہے، اور عوام کا نصیب ہر دور میں یہی رہتا ہے کہ نئے چہروں سے پرانی تسلیاں سنیں ۔ میکیاویلی کے مطابق حکمران کو دشمن کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ عوام کو خوف میں رکھ کر اپنی گرفت مضبوط کی جا سکے۔ پاکستان میں یہ دشمن کبھی بھارت ہے، کبھی سیاسی مخالف، کبھی میڈیا اور کبھی اپنی ہی عوام کو باغی بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ اسی خوف کے سائے میں حکمران اپنی ناکامیوں کو چھپاتے ہیں اور اپنی بقا کیلئے نئے ڈرامے تخلیق کرتے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام نے اس مکاری کو مزید آسان بنا دیا ہے۔ آج سیاست اور اقتدار کاروبار کی طرح چلتا ہے۔ سرمایہ کار امیدوار میں پیسہ لگاتا ہے، وہ جیتتا ہے، اقتدار میں آ کر ٹھیکے، منصوبے اور مراعات میں اپنے محسنوں کا حصہ نکالتا ہے۔ یہ وہی مفاد پرستی ہے جسے میکیاویلی نے اقتدار کا لازمی جزو قرار دیا، فرق صرف یہ ہے کہ اُس کے زمانے میں یہ تلوار اور معاہدوں سے ہوتا تھا، اور آج یہ نوٹ اور نیلامیوں سے ہوتا ہے۔بیوروکریسی اس کھیل کی سب سے پرانی ٹیم ہے۔ حکمران بدلتے ہیں مگر یہ نظام کے اصلی کھلاڑی ہیں جو ہر حکومت میں اپنی کرسی محفوظ رکھتے ہیں۔ میکیاویلی کے مطابق اصل طاقت ان کے ہاتھ میں ہے جو بادشاہ کے احکامات کو نافذ کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی فیصلے وہی ہوتے ہیں جو فائلوں میں لکھے جائیں، اور فائل وہی آگے بڑھتی ہے جس میں وزن زیادہ ہو، چاہے وہ وزن کاغذ کا نہ ہو۔عدلیہ، جو عوام کی نظر میں انصاف کا چراغ ہے، اکثر اقتدار کے ایوانوں میں ہوا کا رخ دیکھ کر اپنا شعلہ سیدھا کرتی ہے۔ میکیاویلی کہتا تھا کہ حکمران کیلئے اخلاقیات کی پابندی محض دکھاوا ہے، اصل مقصد اقتدار کو برقرار رکھنا ہے۔ یہی سوچ جب جج کے ذہن میں بیٹھ جائے تو قانون طاقتور کا ہتھیار بن جاتا ہے اور کمزور کی بیڑی۔عام عوام اس شطرنج کے مہروں میں سب سے زیادہ پٹے جانے والا مہرہ ہیں۔ ان کے ووٹ ، ان کی محنت، ان کا خون اور پسینہ اقتدار کی سیڑھی ہے، مگر منزل ہمیشہ دوسروں کی ہوتی ہے۔ میکیاویلی کے زمانے میں بھی عوام کو امید کے خواب دکھا کر حکم ماننے پر مجبور کیا جاتا تھا اور آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ فرق صرف لباس، زبان اور ہتھیار کا ہے، کھیل وہی ہے ۔ پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام اور میکیاویلی کے نظریات میں مماثلت خوفناک حد تک زیادہ ہے۔ یہاں بھی حکمران عوام کے لیے نجات دہندہ کا لبادہ اوڑھتا ہے، دوستوں کو نوازتا ہے، دشمنوں کو ختم کرتا ہے، خوف پیدا کرتا ہے اور اصولوں کو مفاد کے ترازو میں تولتا ہے۔ پانچ سو سال پرانی یہ کتاب آج بھی ہمارے ایوانوں میں پڑھے بغیر پڑھی جا رہی ہے اور شہزادے بدلتے ہیں مگر دی پرنس کا نصاب وہی رہتا ہے۔

