ہم کب سے منتظر ہیں یہ سوچ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کب ہوگا وہ سبز امن سویرا جب کلیاں کھلیں گی اور پھول پھوٹیں گے ، ہر سو ہریالی ہوگی خوشحالی ہوگی ، کب ہوگا اس نئی سحر کا طلوع آخر کب۔؟ بڑے بڑے محلات بنگلوں میں امیروں کے گھوڑے اور کتے تو سونے کے نوالے لیتے ہیں جبکہ ایک کام آدمی دو وقت کی روٹی کو ترستا ہے ۔ اپنے بہتر مستقبل کی خاطر کچھ خواب لے کر غربت و افلاس کے مارے بے روزگار نوجوان بیرون ملک بھاگ رہے ہیں ، جی ہاں یہ غم روزگار ہی ہے جو انہیں اپنے گھر پاکستان میں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تو یہ بے چارے کشتیوں سے لٹک کر قسمت سنوارنے کا سوچتے ہیں اور اپنی جانیں تک دے گزرتے ہیں ، ایسے لوگوں کی کوئی سیاسی جماعت ہوتی ہے نہ جلسہ و جلوس اور نہ ہی انتخابات اور ووٹ کے لین دین سے ہی انہیں کوئی دلچسپی ہوتی ہے بس دو اور دو چار روٹیاں ہی سوچتے ہیں یہ بھوکے ننگے لوگ مٹی رنگے لوگ ، ان بے چاروں کا کوئی چارہ نہیں ہے اس غریب قوم و ملک کا خدا کے سوا کوئی سہارا نہیں ہے ، کوئی صورت نظر نہیں آتی کیونکہ وسائل ختم ہو رہے ہیں اور مسائل بڑھتے ہی چلے جا رہے ، غریب عوام کو غربت کی گہری دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے۔ ڈیزل ، پیٹرول ، گیس اور بجلی کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں ، اشیائے خورد و نوش آٹا ، گھی ، چاول ، چینی ، چنے ، مرغی ، دالیں اور سبزیاں سب روز مرہ کے استعمال کی چیزیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔
ان حالات میں دھاندلی کی تحقیق کے بغیر حکومت پاکستان سے بات چیت نہ کرنے اور آئندہ قرض نہ دینے کے حوالے سے عمران خان کے خط کو میں سہہ نہیں سکتا اور اسے حماقتوں کا ہمالہ یا عمرانی حماقتوں کی انتہا کے سوا کچھ کہہ نہیں سکتا ۔ مدتوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد ہی یہ سوھنا دیس پاکستان معرض وجود میں آیا تھا اور ہمارے بزرگوں نے حصول پاکستان کی خاطر تحریک پاکستان میں بڑی بے مثال اور لازوال قربانیاں دی تھیں اسی لیے کوٹ کوٹ کر بھری ہوی ہے یہ وطن سے محبت ہمارے خون و خمیر میں شامل ہے اور ہم اہل پاکستان وطن کی محبت سے سرشار ، وفادار و حبدار ہی رہتے ہیں کیونکہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں اور اپنے پیارے پاکستان سے آگے ہمیں کچھ بھی نہیں ہے ، آپ کی ریڈ لائن کوئی کھلاڑی ہوگا یا پھر کپتان ہوگا جبکہ ہماری ریڈ لائن ہمارا پاکستان ہے ۔ جانتا ہوں میں نے خان کے اس خط کو حماقتوں کی انتہا کہا ہے میں نے ماضی میں جب قطری خط کو صدی کا سب سے بڑا جھوٹ کہا تھا تو تب بھی کہنے والے بہت کچھ کہتے رہ گئے تھے ، میں نے اقوام عالم میں اور سارے عالم میں پاک فوج کے نمایاں نام و مقام کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کی سلامتی و تحفظ کے ضامن سب سے سر بلند اور منظم و متحرک ادارے کی خدمات کو دیکھ کر متعدد بار پاک فوج کو سلام کہا لکھا تو کئی جاہلوں نے اس وقت بھی تنقید کی تھی، تو میں نے جوابا پہلے بھی کہا تھا اور آج ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ میں سچ لکھنے سے کبھی بھی باز نہیں آو¿ں گا میں تو آج بھی کہہ رہا ہوں اپنے ایک شعر کی صورت میں کہ :
ایک مسلم سا کسی کا اوج نہیں ہے
پاک فوج جیسی کوئی فوج نہیں ہے
آئی ایم ایف کو خط لکھنے والوں سے بصد ادب میرا یہ سوال ہے کہ کیا آپ IMF کی ادارہ جاتی شرائط و طریقہ کار اور قواعد و ضوابط کو کچھ جانتے سمجھتے بھی ہیں اور کیا IMF نے ایڈ لینے والے ممالک کے لیے پہلے سے ایسی کوئی شرط رکھی ہوئی بھی ہے یا نہیں۔؟ اگر نہیں رکھی ہوئی تو پھر آپ کس حیثیت سے انہیں یہ سمجھا رہے ہیں اور سکھلا رہے ہیں ، اگر آپ کو کوئی یہ کہہ دے کہ یہ منہ اور مسور کی دال ، یا پھر ایسا بول دے کہ چل سکدی نیں تے ناں دوڑنی تو پھر آپ کی کیا عزت رہ جائے گی ۔ میں نے عمران خان کے بارے میں کبھی کہا تھا کہ :
اندھیرے جتنا زور لگائیں سورج چڑھ کر رہتا ہے
میری آس امید عمران خان ہر پاکستانی کہتا ہے
میں نے اس شعر میں عمران خان کے مخالف صاحبانِ سیاست کو اندھیرے کہا تھا جبکہ عمران کو مقبول اور بلا شبہ حالیہ الیکشن میں عوام نے عمران خان کا ساتھ دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک مقبول لیڈر ہیں لیکن عمران خان شاید اپنی اس جیت کو بھی ہار میں تبدیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، وہ اپنے پاو¿ں پر مزید کلہاڑے مار کر اپنی عوامی مقبولیت کو کھونے بلکہ ڈبونے کے در پے ہیں بس اپنی جہالتوں اور حماقتوں کی بدولت۔ عمران خان کے لیے میرا یہ نیک مشورہ بالکل مفت ہے کہ اس الیکشن میں عوام نے جو آپ کو مینڈیٹ دیا ہے اس کا احترام اس طرح فرمائیں کہ اپنی PTI کو حقیقی معنوں میں ایک سیاسی جماعت بنائیں اور منوائیں پھر اسے قومی ادارے میں لائیں ان سنی اتحاد کونسلوں کے وسیلے سے آپ کو کبھی کوئی راستہ ملے گا اور نہ منزل و مقام ، خدارا ان حسرتوں ، مسرتوں اور مروتوں کو بھول کر آپ اپنی پارٹی میں موجود بڑوں سے کچھ سیکھیں اور سمجھیں پلیز نکلیں اس سوشل میڈیا کے ڈراموں اور پتلی تماشوں سے ، آپ کی پارٹی میں پرویز الہی ، شاہ محمود اور لطیف کھوسہ سمیت درجنوں سینئر اور تجربہ کار لوگ ابھی بھی موجود ہیں بس اب بالغ ہو جائیں تھوڑے بڑے ہو جائیں ۔ حکومت کسی کی بھی ہو IMF سے اگر ایڈ آتی ہے تو وہ کسی پارٹی یا PDM کے لیے نہیں آئے گی بلکہ پاکستان کے لیے ہی آئے گی جو ہمارا گھر ہے ، چاہے کرتا دھرتا کوئی بھی ہو گھر تو آخر اپنا ہے اور آپ اس کے خلاف خط لکھتے ہیں کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔معافی مانگنے سے مسلم بے توقیر نہیں ہوتا بلکہ باوقار ہوتا ہے۔
کالم
نئی سحر کا طلوع آخر کب۔؟
- by web desk
- فروری 28, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 359 Views
- 10 مہینے ago