کالم

نئی قانون سازی اہم پیش رفت

سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 34 تک بڑھانے’فوجی سربراہوں کی مدت 5 سال کرنے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر سمیت 6 ترمیمی بلز کی اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود قومی اسمبلی اور سینیٹ سے کثرت رائے سے منظور ی عدالتی اصلاحات اور ملک میں سیاسی استحکام کی جانب انتہائی اہم پیش رفت ہے بل کے مطابق سپریم کورٹ میں موجود آئینی معاملات درخواستیں اپیلیں نظرثانی درخواستیں آئینی بینچ نمٹائے گا، چیف جسٹس سپریم کورٹ کے سینئر جج اور آئینی بینچز کے سینئر ترین جج پر مشتمل کمیٹی آئینی بینچز بنائے گی آئینی بینچز کا سینئر ترین جج نامزد نہ ہو تو کمیٹی چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج پر مشتمل ہوگی چیف جسٹس اور سینئر ترین جج آئینی بینچ میں نامزد ہیں تو آئینی بینچ کا سینئر ترین جج کمیٹی کا رکن ہوگا کوئی رکن بینچ میں بیٹھنے سے انکار کرے تو چیف جسٹس کسی اور جج یا آئینی بینچ کے رکن کو کمیٹی کا رکن نامزد کریں گے کمیٹی اپنے کام کا پروسیجر طے کرے گی پروسیجر بننے تک کمیٹی اجلاس چیف جسٹس طلب کریں گے آئینی بینچ میں جج کی دستیابی پر تمام صوبوں سے ججز کی برابر تعداد ہوگی اپیل فیصلے کے 30 روز کے اندر آئینی بینچ سے لارجر آئینی بینچ کو منتقل ہوگی قومی اسمبلی میں پاکستان آرمی ایکٹ 1952 پاکستان نیول ایکٹ 1961 اور پاکستان ائیر فورس ایکٹ 1953 میں ترمیم کے بلز کے تحت فوجی سربراہان کی مدت ملازمت 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کی گئی ہے سروسز چیفس کو توسیع کی مدت بھی 3 سے بڑھا کر 5 سال کر دی گئی سروسز چیفس کی ریٹائرمنٹ کیلئے 64 سال عمر کی حد بھی ختم کر دی گئی سروسز چیفس کی توسیع کے دوران رینک کی مدت یا عمر کی پابندی کا اطلاق نہیں ہوگا بل کے تحت پاک فوج میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کے قواعد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہوگا تعیناتی دوبارہ تعیناتی یا ایکسٹینشن کی صورت میں آرمی چیف بطور جنرل کام کرتا رہے گا اسی طرح ائیر چیف اور نیول چیف کیلئے ریٹائرمنٹ عمر کی حد ختم کردی گئی ہے اور لکھا گیا ہے کہ ائیر چیف بطور ائیر مارشل اور نیول چیف بطور پاکستان نیوی ایڈمرل خدمات سر انجام دیتے رہیں گے انسان کی اصلاح اور معاشرے کی بقا قانون کے عملی نفاذ کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ قانون کی حکمرانی کسی معاشرے کی بقا کی اکائی ہے انسانی تہذیب و تمدن میں قانون کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اںنسان نے حالات و واقعات سے عہدہ برآہ ہونے کے لئے عقل و شعور کی مدد سے نئے نئے قوانین بنائے جن کا بنیادی مقصد حیوانی جبلت پر کنٹرول تھا نیز قانون کی بالادستی اور عدل و انصاف کی فراہمی ہی معاشر ے کی ضامن ہے احادیث نبوی میں عدل وانصاف کی فراہمی پر بہت زور دیا گیا ہے جس معاشرے میں باہمی خیر کے قیام اور شر کے مٹانے کی سعی نہیں کی جاتی وہ بالآخر مٹ جاتا ہے اسلام کی روشن تعلیمات کے باوجود آج کا معاشرہ عدل و انصاف کا دامن چھوڑ کر جائز ناجائز خواہشات کی تکمیل میں کوشاں ہے اوریہ صورتحال معاشرے کے زوال کا باعث بن رہی ہے مظلوم لوگ انصاف کےلئے در بدر پھر رہے ہیں لا اینڈ جسٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دسمبر تک ملک بھر کی عدالتوں میں 22 لاکھ 60 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا تھے اور کل زیر التوا مقدمات میں سے 82فیصد ضلعی عدالتوں میں جبکہ18 فیصد اعلیٰ عدلیہ میں تھے سپریم کورٹ میں اس وقت 59 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ لاہور ہائی کورٹ میں بھی زیر التوا مقدمات کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے عدالتوں میں ججوں کی تعداد کی کمی کا مقدمات کے التوا سے گہرا تعلق ہے اس وقت ہائی کورٹ سے لیکر سول عدالتوں تک ہر جگہ ججوں اور عملے کی متعدد نشستیں خالی ہیں لا اینڈ جسٹس کمیشن کے مطابق چھوٹی عدالت کے جج کو ایک دن میں 150سے 200 کیسوں کی سماعت کرنا ہوتی جو عملی طور پر ناممکن ہے اگر تمام کیسز کو سننا ہو تو فی کیس محض ایک سے ڈیڑہ منٹ کا وقت ہوتا اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں جرائم کی شرح بھی بڑھی ہے لیکن آج ہماری عدالتوں میں ججوں کی تعداد کم ہے اور مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ججز کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے لوگ انصاف کیلئے عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے عمر گنوا دیتے ہیں ایسے حالات میں بر وقت انصاف کی فراہمی کے لئے عدالتی نظام میں اصلاحات ناگزیر ہوجاتی ہیں سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی بھر ماراور عوام کو انصاف کی فراہمی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ججوں کی تعداد میں اضافہ مثبت قدم ہے لیکن زیادہ ضرورت ماتحت عدالتوں میں ججوں کی خالی نشستوں کو پر کرنا ہے اگر عدالتوں میں ججوں کی تعداد بڑھا دی جائے اور اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ عدالت میں انصاف کیلئے آنے والوں کو جلد انصاف مل جائے گا تو اس کے یقینا اچھے نتائج برآمد ہونگے موجودہ صورت حال انصاف میں تاخیر کرپشن جانبداری غیر پیشہ روانہ رویوں اور انصاف کی راہ میں رکاوٹوں کی وجہ سے سول اور کرمنل دونوں شعبوں میں اصلاحات کی متقاضی ہے پاکستان کی فوجداری نظام کے بنیادی ڈھانچے میں دائمی خرابیاں سرایت کر چکی ہیں اور مرض دائمی ہے مقدمات کو جلد از جلد نمٹنا اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا مقصود ہے تو اس کے لئے محض ججوں کی تعداد بڑھانے سے کام نہیں چلے گا مستقل بنیادوں پر جدید خطوط پر انفارمیشن ٹیکنالوجی سے آراستہ امداد لے کر اصلاحات آئینی اور قانونی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں جو کرنا ہوں گی قومی اسمبلی میں پاکستان آرمی ایکٹ 1952پاکستان نیول ایکٹ 1961 اور پاکستان ائیر فورس ایکٹ 1953 میں ترمیم کے ذریعے مسلح افواج کے سربراہوں کی مدت ملازمت 5 سال کرنے کا اقدام کسی ایک شخص کے لئے نہیں بلکہ ادارے کی سطح پر ہے مدت ملازمت میں یہ توسیع آرمی چیف کے ساتھ ساتھ تمام سروسز چیفس کےلئے ظاہر کرتی ہے کہ ماضی کے بر عکس فرد واحد کی بجائے ادارہ جاتی اپروچ کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی گئی ہے معیشت کا میدان ہو یا ملک کو درپیش سیکورٹی چیلنجز تین سال کے عرصے میں کسی بھی پالیسی کو منطقی انجام تک پہنچانا ممکن نہیں تھا اگر تین سال کے بعد قیادت تبدیل ہو تو اس سے ملک میں جاری پالیسیاں متاثر ہوتی ہیں وطن عزیز کی موجود صورت حال میں سروسز چیفس کی مدت ملازمت کا پانچ سالہ تعین ملک سے غیر یقینی صورت حال کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا اور استحکام کو یقینی بنائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے