کالم

نئے جمہوری اور پالےمانی سفر کا آغاز

بہار آتی ہے چلی جاتی ہے ،بہار مےں ہر طرف پھول کھلتے ہےں اور ہر کونے مےں سبزہ ہی سبزہ ہوتا ہے ۔بہار گزر جاتی ہے ۔ہر انسان کو ےہ امےد ہوتی ہے ےہ دوبارہ آئے گی ۔امےد پر ہی دنےا قائم ہے ،خواہش مٹ جانے کے بعد ہر حسرت دم توڑ جاتی ہے ۔اسی طرح پاکستان کے قےام سے لےکر اب تک جب بھی نئی حکومت آتی ہے ،وطن عزےز کے ہر باسی کے چہرے پر ےہ امےد ہوتی ہے کہ شاےد ےہی پاکستان مےں خوشحالی لے آئے ،بعد مےں معلوم ہوتا ہے حالات پہلے سے بدتر ہو رہے ہےں تو پھر ہر شہری کی امےد دم توڑ دےتی ہے ۔پھر نئی حکومت کی آمد کا انتظار شروع ہو جاتا ہے لےکن نئی حکومت آنے پر پھر ،اے بسا آرزو کہ خاک شد۔وطن عزےز کا ماضی اس حقےقت پر شاہد ہے کہ جب بھی کوئی نےا حکمران آتا رہا ہے تو وہ ابتدا مےں بڑی پےغمبرانہ باتےں کرتا ہے کہ ہم ےوں کر دےں گے ،ہم ےہ تبدےل کر دےں گے ۔جھوٹی جمہورےت کی جگہ سچی جمہورےت لائےں گے ،لوگوں کو لکھائےں پڑھائےں گے ،انہےں دنےا مےں عزت سے جےنا سکھائےں گے ۔انصاف کا بول بالا ہو گا لےکن تھوڑے عرصے بعد اسی رنگ مےں رنگا جانے لگتا ہے ےعنی کہ ہر کہ در کان نمک رفت نمک شد ۔دےکھنا ےہی ہے کہ آخر کےوں؟اگر سےاسی جماعت نے عوامی طرز سےاست اپنانے کی کوشش کی تو اسے کچھ عرصے بعد ہی منہ کی کےوں کھانی پڑی اور زےادہ مزاحمت نہ کر سکی اور واپس اسی راستے پر چل پڑی جسے چھوڑ کر نئی راہ چنی تھی ۔دراصل ہمارا طرز پےداوار زرعی اور سماجی ڈھانچہ بدستور جاگےر دارانہ ہے اور پاکستان مےں جمہورےت شخصی اقتدار کے دائرے سے باہر نہےں آ سکی ۔کانگرس نے آزادی کے فوراً بعد پہلا کام ےہ کےا کہ اےک اےک کر کے ہر صوبے سے جاگےر داری نظام ختم کر دےا ۔پاکستان اور بھارت کے سےاسی کلچر مےں جو نماےاں فرق نظر آتا ہے اس کی وجہ دونوں ملکوں کے سماجی ڈھانچے سے ہے ۔مہاتما گاندھی نے کانگرس کی لگام اپنے ہاتھ مےں لےنے کے بعد زےادہ توجہ ثقافتی تبدےلی لانے ےعنی عوام مےں بےداری پےدا کر کے ان کے روےے تبدےل کرنے پر مرکوز کی ۔بدےسی مال کا بائےکاٹ اور دےسی مال کے استعمال پر زور دےا ۔سماج کے نچلے درجے کا شخص جو پہن سکتا ہے خود وہ لباس اپناےا اور دوسروں سے کہا کہ گھرےلو کھڈی کے بنے ہوئے کپڑے پہنو ۔چنانچہ کانگرس کے کارکنوں نے کھدر کے کپڑے پہننے شروع کر دئےے ۔معمولی کارکن سے لےکر بڑے بڑے لےڈرز نے اےک ہی لباس اپناےا ۔کھدر کے کپڑوں کےلئے سوت کاتنے کی تلقےن کی ۔اس کےلئے خود چرخہ چلانا شروع کےا ۔مسلم پرےس کو گاندھی کا ٹھٹھہ اڑانے کےلئے اےک موضوع مل گےا ۔گاندھی جن کا چرخہ اور لنگوٹی وغےرہ کو مسلمانوں نے مذاق سے زےادہ اہمےت نہ دی ،مگر ےہ کبھی نہ سوچا کہ سب کتنی بڑی تبدےلی کا باعث بن رہے ہےں ۔چنانچہ آزادی کے وقت بھارت کے عام آدمی کو بدےسی مال سے نفرت کا سبق پڑھانا نہےں پڑا ۔وہاں عام رجحان باہر سے مال منگوانے کی بجائے اپنی مصنوعات استعمال کرنے کی طرف تھا ۔عربی کا مشہور مقولہ ہے :عوام اپنے حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہےں ۔اگر اعلیٰ سطح پر سادگی شروع ہو جائے تو خود بخود نےچے منتقل ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔حکمران جےسے رجحانات رکھتے ہےں ،جس چےز کی حوصلہ افزائی کرتے ہےں ،عوام اس پر خود بخود چل پڑتے ہےں ۔بھارتی وزےر اعظم مودی نے پارلےمنٹ ہاﺅس کی کنٹےن مےں کھانا کھاےا ۔کنٹےن کے طرےقہ کار کے مطابق کاﺅنٹر پر جا کر 60 روپے جمع کروائے جس کے بعد وےٹر نے ان کے سامنے سبزےوں کی پلےٹ پےش کی ۔بھارت کے سابق وزےر اعظم من موہن سنگھ کی بےٹی اپنی ہم جماعت لڑکی کی اس درخواست پر کہ ”مجھے فلاں سوال کا جواب فےکس کر دو ۔“ےہ کہہ کر معذرت کر لےتی ہے ۔”وزےر اعظم ہاﺅس مےں فےکس مشےن سرکاری ہے ،اس کا پرائےوےٹ استعمال امانت مےں خےانت ہو گا ۔“انہی دنوں راقم کے اےک عزےز نے انڈےا کی اےک خاتون وزےر خزانہ جو اپنے والد کو ملنے ان کے گھر گئی وےڈ ےو بھےجی ۔سادہ اور عام سا رہائشی گھر دےکھ کر حےرانگی ہوئی اور ہمارے ہاں کے قائدےن کے محلات کا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گےا ۔بھارت اور پاکستان نے اےک ساتھ آزادی حاصل کی اور ےہ ہمارے بد قسمتی ہے کہ آج ہمےں اپنے حکمرانوں کے سامنے اپنے ازلی حرےف اور غےر مسلم حکمرانوں کی مثالےں پےش کرنی پڑ رہی ہےں ۔ہماری چھہتر سالہ قومی و سےاسی تارےخ پر نظر ڈالی جائے تو بات دعوﺅں ،نعروں سے آگے نہےں بڑھ سکی کےونکہ ےہاں نظام اور اس سے فےض ےاب چہرے اےک خاص طبقہ کے مفادات کے محافظ ہےں ۔اگرچہ جمہورےت عوام کی حکومت کی شہرت رکھتی ہے مگر در حقےقت ےہ اس خاص طبقہ کی اقتدار و اختےارات پر گرفت مضبوط بنانے کا ذرےعہ بنا دی گئی ہے ۔بہر حال ملک مےں عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا عمل تےزی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔پنجاب ،سندھ اور کے پی کے اسمبلےوں کے اجلاس ہو چکے ۔پنجاب مےں ن لےگ ،سندھ مےں پےپلز پارٹی اور کے پی کے مےں تحرےک انصاف کی حکومتےں بن رہی ہےں جبکہ بلوچستان مےں بظاہر پےپلز پارٹی کو اکثرےت حاصل ہے ۔مرکز مےں ن لےگ اور پےپلز پارٹی حکومت بنا رہی ہےں ۔شہباز شرےف بطور وزےر اعظم الےکٹ ہو چکے ہےں ۔ملک مےں اےک نئے جموری و پارلےمانی سفر کا آغاز ہو گےا ہے ۔بہتر ہوتا حکومت سازی کے مراحل خوشگوار ماحول مےں طے پاتے اور نئے اےوان مےں سےاسی قےادت کی مفاہمانہ سوچ کی جھلک دکھائی دےتی اور سےاسی اختلافات بالائے طاق رکھ کر اراکےن آپس مےں اےک دوسرے سے مصافحہ اور معانقہ کر کے جمہوری اقدار کے فروغ کے حوالے سے کام کرتے لےکن اس دوران نعرے بازی کا سلسلہ جاری رہا اور تمام وقت اجلاس مےں فرےقےن کے مخالفانہ نعرے گونجتے رہے ۔وفاق اور صوبوں مےں نئی حکومتےں تو بن جائےں گی ۔انتخابات مےں دھاندلی کا شور بھی جاری رہے گا ۔محاذ آرائی ،لڑائی ،زور آزمائی کا پھر نےا دور شروع ہو گا کےونکہ پی ٹی آئی اور مولانا فضل الرحمٰن اپوزےشن مےں ہوں گے ۔کمزور مخلوط حکومت کو اپوزےشن کا سامنا رہے گا ۔گزشتہ ساڑھے سات دہائےوں مےں ےہاں ہر طرح کے حکمران آئے اور مختلف دلفرےب نعروں سے عوام کو بہلانے کی کوشش کی مگر لگ بھگ سبھی نے اپنی ذمہ دارےوں مےں جو کوتاہےاں برتےں ان کے سبب آج عوام کی اکثرےت کو صحت ،تعلےم روزگار کے مواقع اور مکان جےسی سہولتےں تو کجا ،صاف پانی ،خالص خوراک اور سانس لےنے کو ہوا تک مےسر نہےں ۔اب ےہ وقت بتائے گا کہ کےا نئی وفاقی حکومت شہباز شرےف کی قےادت مےں ملک کے معاشی ،سےاسی ،معاشی مسائل مےں استحکام لانے مےں کامےاب ہوتی ہے ےا نہےں اور مہنگائی کے خاتمے کےلئے کےا اقدامات کرتی ہے ؟آئی اےم اےف کے ساتھ کس طرح قرضے کے معاملات کو آگے بڑھانے مےں کامےاب ہوتی ہے ۔تا ہم نئی حکومت کا کامےاب ہونا بہت ضروری ہے تا کہ عوام کو مزےد ماےوسےوں اور غےر ےقےنی صورتحال سے بچاےا جا سکے ۔موجودہ ملکی صورتحال کے تناظر مےں اہم حکومتی ترجےحات اور اقدامات کے بارے مےں عوام کو اعتماد مےں لےا جائے ۔تمام سٹےک ہولڈرز کو اعتماد مےں لےکر قومی سےکورٹی پالےسی مرتب کی جائے تا کہ قوم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو واضع لائحہ عمل دےا جا سکے ۔توانائی کے بحران کو حل کرنے کےلئے مجوزہ پالےسی کا اعلان کےا جائے تا کہ عوام کو اس اہم ترےن مسئلے کے حل کےلئے کئے جانے والے فوری اور طوےل مدتی اقدامات کے بارے مےں معلوم ہو سکے ۔انصاف کی فوری فراہمی کو ےقےنی بنانے کےلئے عدلےہ کے ساتھ مشاورت کے بعد فوری اور ہمہ وقت اقدامات کئے جائےں ۔خارجی مسائل سے نبرد آزما ہونے کےلئے بےن الاقوامی اور علاقائی حالات کے تقابل مےں ملکی مفادات کے عےن مطابق موثر اور دوررس خارجہ پالےسی کے اہداف کا چناﺅ کرتے ہوئے ان کے حصول کےلئے اقدامات کئے جائےں ۔اس وقت بےن الاقومی سطح پر مسئلہ فلسطےن اور مسئلہ کشمےر بھی نئی حکومت کےلئے بڑا چےلنج ہےں ۔بہتر معاشی صورتحال مےں بہتری کےلئے متعےن اہداف کو حاصل کرنے کےلئے جامعہ اقدامات کئے جائےں تا کہ نہ صرف عوامی اعتماد حاصل ہو سکے بلکہ معےشت بھی پٹری پر آ سکے ۔معاشی صورتحال کو بہتر بنانے اور اعشارےے ٹھےک کرنے کےلئے مشکل فےصلے کرنا ہوں گے مگر ہمارے ہاں معاشی اعشارےوں کی درستگی مےں ہی پانچ سال گزر جاتے ہےں ۔نئی حکومت کو مخالف جماعتوں کی صوبائی حکومت کے ساتھ باہمی رابطے اور اخلاص پر مبنی تعلقات استوا کئے جائےں ۔وطن عزےز اس وقت تاےخ کے انتہائی اہم دور سے گزر رہا ہے جہاں ہمارے لئے غلطی کی اب کوئی گنجائش نہےں ۔اﷲ پاکستان کا حامی و ناصر ہو ۔آمےن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے