اداریہ کالم

نئے چیف جسٹس کا تقرر

ویں آئینی ترمیم کی منظوری اور نفاذ کے بعد نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کےلئے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس منگل کو ہوا جس میں نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کا فیصلہ ہوا ۔ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل26 کے نمائندے اس اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوئے ، انھوں نے کمیٹی کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا ۔اس اجلاس میں چیف جسٹس کی تقرری کےلئے سیکرٹری قانون کی جانب سے بھیجے گئے سپریم کورٹ کے تین انتہائی سینیئر ججوں کے نام پیش کیے گئے تھے جن میں جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے۔ کمیٹی نے جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام پر اتفاق کیا ۔نئی آئینی ترمیم کے مطابق خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے تجویز کردہ نام کی سمری پہلے وزیراعظم شہباز شریف کو بھیجی گئی جنھوں نے اس کو منظوری کے لیے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو ارسال کیا جنہوں نے نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کے حکم نامے پر دستخط کرتے ہوئے نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی 26 اکتوبر سے 3 سال کیلئے کر دی ہے ۔صدر آصف علی زرداری نے چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی آئین کے آرٹیکل 175 اے(3)، 177 اور 179 کے تحت کی۔توقع کے مطابق پاکستان میں چیف جسٹس کی تقرری کے لیے ذمہ دار خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے سپریم کورٹ میں سینیارٹی کے اعتبار سے تیسرے نمبر کے جج جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر نامزد کیا ہے،26ویں آئینی ترمیم سے قبل کے اصول کے تحت سینیارٹی کے لحاظ سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس منصور شاہ کو بننا تھا اور اس کے بعد جسٹس اختر دوسرے نمبر پر تھے۔تاہم خصوصی کمیٹی نے ان دونوں معزز ججز کو نظر انداز کرتے ہوئے جسٹس آفریدی کی نامزدگی کی توثیق کی ہے، کمیٹی کے آٹھ ارکان نے ان کی حمایت کی جبکہ جے یو آئی ایف کے ایک واحد نمائندے نے جسٹس منصور شاہ کو ووٹ دیا۔اس فیصلے کا اعلان وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کیا اور کہا کہ پارلیمنٹ ہاو¿س میں منعقدہ خصوصی پینل کے بند کمرے میں اجلاس کے دوران یہ فیصلہ کیا گیا۔انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ پی ٹی آئی کے اراکین آئینی ترامیم کے خلاف بطور احتجاج اس کارروائی میں شامل نہیں ہوئے۔ اجلاس میں سبھی حکومت کے حامی ارکان شامل ہوئے، جس میں خواجہ آصف، احسن اقبال، شائستہ پرویز، راجہ پرویز اشرف، سید نوید قمر، رانا انصار، فاروق ایچ نائیک، اعظم نذیر تارڑ اور کامران مرتضی نے حصہ لیا۔ پی ٹی آئی سے منسلک ارکان بیرسٹر گوہر علی خان، حامد رضا اور بیرسٹر سید علی ظفر نے پینل کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔اس اجلاس سے قبل ہی پاکستان تحریک انصاف اور سنی اتحاد کونسل کے نمائندوں نے عدم اطمینان کا حوالہ دیتے ہوئے کمیٹی کے بائیکاٹ کے اپنے فیصلے کی تصدیق کی ۔ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے اراکین کی عدم موجودگی کے باوجود کمیٹی نے عدالت میں تقرری کے عمل کو آگے بڑھایا۔ سکریٹری قانون و انصاف نے کمیٹی کے سامنے نامزد ججوں کی پروفائلز اور قابلیت پیش کی جس میں ان کے قانونی کیریئر، تعلیمی پس منظر اور ان کی عدالتی تقرریوں کی ٹائم لائنز شامل تھیں۔پاکستان کی عدلیہ میں چیف جسٹس کی یہ تقرری ملک کی تاریخ میں ایک اہم لمحہ ہے،کیونکہ اس سے پہلے سینیئر ترین جج خود بخود چیف جسٹس کا عہدہ سنبھال لیتے تھے۔یہ تبدیلی عدالتی تقرریوں میں اصلاحات کےلئے حکومت کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے، جسکے سبب عدالتی آزادی کے حوالے سے بہت سے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا گیا ہے، اس سے قبل الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کا سب سے سینیئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔جسٹس یحییٰ آفریدی کے کندھوں پر پاکستان کے سب سے بڑے ایوان عدل کا بوجھ آن پڑا ہے۔جس سے عہدہ برآ ہونا ایک بڑا چیلنج ہے۔تاہم ان کا ٹریک ریکارڈ اس بات کا مظہر ہے کہ وہ اس بھاری ذمہ داری کو احسن انداز میں نبھائیں گے۔ان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم لاہور کے ایچیسن کالج سے حاصل کی۔ اسکے بعدگورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا جبکہ انھوں نے قانون کی تعلیم برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے حاصل کی۔1990میں ہائیکورٹ کے وکیل کی حیثیت سے پریکٹس شروع کی جبکہ 2004 میں سپریم کورٹ میں وکالت کا آغاز کیا۔اس دوران وہ خیبر پختونخوا کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی عہدے پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔ 2012 میں جب جسٹس آفریدی کو پشاور ہائیکورٹ کا مستقل جج تعینات کیا گیا تو انھوں نے اپنی لاءفرم سے علیحدگی اختیار کر لی تھی ۔ ہائیکورٹ میں چار سال کام کے بعد30دسمبر2016کو جسٹس آفریدی کو پشاور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا گیا۔اس عرصے کے دوران جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ چل رہا تھا تو انھوں نے کچھ عرصے کے لیے اس خصوصی بینچ کی سربراہی کی تھی، تاہم پھر وہ اس خصوصی بینچ سے الگ ہو گئے تھے۔پشاور ہائیکورٹ میں چھ برس کا عرصہ گزارنے کے بعد 28جون 2018کو انھیں سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔حال ہی میں وہ چیف جسٹس قاضی فائز کے ساتھ ان چار ججوں میں شامل تھے جنھوں نے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو الاٹ کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔جسٹس یحییٰ آفریدی کی عمر اِس وقت 59 سال ہے اور چیف جسٹس کے طور پر نام کی منظوری ہونے پر انھیں ریٹائرمنٹ کی مقررہ عمر تک پہنچنے سے تین برس قبل ہی ریٹائر ہونا پڑے گا۔اس کی وجہ 26 ویں آئینی ترمیم ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ملک کے چیف جسٹس کا تقرر تین سال کے لیے ہو گا اور یہ مدت مکمل ہونے کے بعد اس چیف جسٹس کو ریٹائر ہی سمجھا جائے گا، چاہے وہ 65 سال کی عمر کو نہ بھی پہنچا ہو۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کا لیگل کیرئر بہت بہتر ہے جبکہ انھیں انتظامی امور کا تجربہ بھی حاصل ہے۔ انھوں نے متعدد ایسے فیصلے دیے ہیں جن کو وکلا کمیونٹی میں بڑی عزت سے دیکھا جاتا ہے۔
خطے میں قیام امن کیلئے سعودی اردن اتفاق
سعودی عرب اور اردن ایسے ممالک ہیں جن کا علاقائی امن کے حوالے سے سیاسی وژن ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ دونوں ممالک اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے خطے میں شورش زدہ حالات پر سکون بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس لیے کہ یہ دونوں ممالک علاقائی مساوات کا حصہ ہیں۔ ریاض میں حال ہی میں سعودی اردن سربراہ ملاقات کا انعقاد ہوا۔ اردنی فرماں روا کا دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب خطہ نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ایسے میں ایک فعال عرب سفارتی سرگرمی کا آغاز ضروری ہو گیا تھا۔ سعودی عرب نے جنگ کی چکی روکنے اور امن اصولوں پر عمل درآمد کی خاطر عالمی برادری کے ساتھ رابطے کے ذریعے اس سرگرمی کی قیادت کی۔ اردن اور سعودی عرب بہت مضبوط تعلقات کے ساتھ مربوط ہیں۔ شاہ عبداللہ دوم کا حالیہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان علاقائی رابطہ کاری کے سلسلے میں ہے۔ اردن کا جغرافیائی محل وقوع عمان پر یہ بات لازم کرتا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کےلئے سیاسی رابطہ کاری کی سطح کو بلند کرے اور پھر فوری تعمیر نو کےلئے اقدامات کا آغاز کرے۔ علاقائی قضیوں کے حوالے سے سعودی عرب اور اردن کے بیچ موافقت اور نمایاں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ خطے میں امن کو یقینی بنانے کی کوششوں کی سپورٹ کی خاطر سعودی عرب اور اردن کے درمیان اعلیٰ سطح کی رابطہ کاری اہمیت کی حامل ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان خصوصی رابطے اور تعاون کے ذریعے خطے میں جنگ کا دائرہ وسیع ہونے کا ممکنہ خطرہ کم کیا جا سکتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات تذویراتی گہرائی رکھتے ہیں۔ سعودی عرب اس مشکل وقت میں اردن کی حمایت کا شدید خواہاں ہے ۔ سعودی اردنی رابطہ کاری عرب موقف کی یکجہتی کو مضبوط بنانے کے لئے ایک اہم ہم آہنگی شمار کیا جا رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے