کالم

ناگالینڈ اور اروناچل پردیش میں کالے قوانین کا نفاذ

riaz chu

بھارتی حکومت نے ناگالینڈ اور اروناچل پردیش میں کالے قوانین” ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ“ اور”آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ“ کے نفاذ میں مزید چھ ماہ کی توسیع کردی ہے جن کے تحت بھارتی فورسز کوبے پناہ اختیارات حاصل ہیں۔ یہ فیصلہ سرحد سے ملحق دونوں شمال مشرقی ریاستوں میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد کیا گیا ہے۔ بھارتی وزارت داخلہ نے ایک نوٹیفکیشن میں ناگالینڈ کے مزید چار اضلاع کو نو دیگر اضلاع اور 16پولیس اسٹیشنوں کے ساتھ چھ ماہ کی مدت کے لیے” شورش زدہ علاقے “قرار دیا ہے۔ایک اور نوٹیفکیشن میں بھارتی وزارت داخلہ نے اروناچل پردیش میں تیرپ، چانگ لانگ اور لونگڈنگ اضلاع اورآسام کی سرحد سے متصل ضلع نامسائی اور مہادیو پور پولیس اسٹیشنوں کی حدود میں آنے والے علاقوں کو” شورش زدہ“ قرار دیا ہے۔ان کالے قوانین کے تحت بھارتی فورسز کو کسی بھی شخص کو شک کی بنیاد پر قتل کرنے،لوگوں کے مکانات ضبط اورتباہ کرنے اور بغیر کسی وارنٹ کے کسی بھی گھر میں گھسنے اورلوگوں کو گرفتارکرنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہے اور بھارتی فورسز کتنا ہی بڑا جرم کیوں نہ کریں، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ناگا لینڈ بھارت کے شمال مشرق میں واقع ایک انتہائی خوبصورت پہاڑی خطہ ہے اور یہاں کے لوگ قدیم قبائلی رسم و رواج کے مطابق اپنی زندگیاں گزارتے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ناگا لینڈ کی 88 فیصد آبادی غیر ہندو مذاہب سے تعلق رکھتی ہے جس میں سے 67 فیصد عیسائی جب کہ باقی دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ 1951 میں ہونے والے ریفرنڈم کے مطابق ناگا لینڈ کی 99 فیصد سے بھی زائد عوام نے بھارت سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن اس کے باوجود بھارت نے وہاں اپنی فورسز کو بھیج کر قبضہ کر لیا تھا۔کچھ عرصہ قبل بھارتی پولیس سروس کے افسران سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اس بات کا اعتراف کیاآزادی اور علیحدگی کی تحریکوں اور دہشت گردی کے نتیجے میں امن وامان کی سنگین صورتحال کا سامنا ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں اور مقبوضہ کشمیر کے علاوہ وسطی بھارت میں بھی امن و امان کا مسئلہ درپیش ہے۔ قبائلی علاقوں میں ماو¿ نواز وں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ بھارت کے پانچ صوبوں جھاڑ کھنڈ، چھتیس گڑھ، اڑیسہ، بہار اور مغربی بنگال میں ماو¿ پرستوں پر ریاستی تشدد کے خلاف ہڑتال کوکامیاب بنانے میں ہر مکتبہ فکر کے افراد نے حصہ لیا۔ سکول، کالج و دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ سرکاری و نجی دفاتر، ٹرانسپورٹ یہاں تک کہ ٹرین سروس بھی بند رہی ۔ مکمل پہیہ جام ہوا۔ جس سے بھارت سرکار ہل کر رہ گئی۔اسی دوران بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میںماو¿ نواز علیحدگی پسندوں کے حملوں میں سینٹرل ریزرو فور س کے 83 اہلکار ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔ ایک بکتر بند گاڑی بھی تباہ ہو گئی۔ بھارتی وزیر داخلہ نے حملوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماو¿ علیحدگی پسند کتنے سفاک ہیں۔اطلاعات کے مطابق بھارت کی بیس ریاستوں کے چھ سو اضلاع میں سے 223 میں ماو¿نواز باغی سرگرم ہیں۔ایک اندازہ ہے کہ ماو¿نواز باغیوں کے بیس سے کم رہنما، تیس کمانڈر اور تقریباً 12000 کیڈرز ہیں۔ ماو¿نواز باغی جن علاقوں میں سرگرم ہیں ان میں بیشتر پچھڑے علاقے ہیں اور وہاں قبائلی آبادی ہے ۔ ہندوستان میں ماو¿نواز تنظیم کی عسکری شاخ کے سربراہ کوٹیشور راو¿ عرف کشن جی نے دعویٰ کیا ہے کہ سن 2025 تک ان کی فورسز’عوامی جنگ میں مکمل فتح‘حاصل کر لیں گی۔ماو¿ نوازوں کو دلی پر قبضہ کرنے میں زیادہ سے زیادہ پندرہ برس لگیں گے۔ فورسز بہترین تربیت یافتہ ہیں اور مرکزی حکومت کی افواج کے کسی بھی حملے کو پسپا کرنے کےلئے تیار ہیں۔ بھارت میں 100 سے زائد دہشت گرد تنظیموں میں سے 35تنظیمیں انتہائی خطرناک شمار کی جاتی ہیں۔ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس٬ بابری مسجد کے انہدام٬ گجرات فسادات اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف دہشت گردی اور قتل و غارت میں بھارت کی خطرناک دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔ تاہم ان سب تنظیموں میں سب سے زیادہ خطر ناک اور شدت تنظیم نکسل باڑی ہے جیسے ماو¿ نواز علیحدگی پسند تنظیم کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ پچھلے بیس سالوں کے دوران ماو¿ باغیوں نے چھ ہزار سے زائد افراد مارے ۔ اس تنظیم کی بڑھتی کاروائیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1996 میں ان کے حملوں میں صرف 156 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ پچھلے سال ان کے ہاتھوں 1134 افراد مارے گئے چونکہ ان کے ٹارگٹ زیادہ تر سیکورٹی اہلکار ہوتے ہیں، اس حوالے سے یہ تعداد کم نہیں۔ گزشتہ چند برسو ں سے بھارت کی مختلف ریاستوں میں نکسل باڑیوں نے قیامت برپا کر رکھی ہے۔ بھارتی وزارت داخلہ کے ترجمان نے ملکی سلامتی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے چھ سو میں سے دو سو اضلاح میں علیحدگی پسندوں کی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ صرف علیحدگی کی تحریکیں ہی نہیں نسلی تنازعات اورذات پات کے جھگڑے بڑھ چکے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ بھارت کا وفاق جبر کے نظام کے ذریعے قائم کیا گیا ہے اور خود بھارتی حلقے ماضی میں خبردار کرتے رہے ہیں کہ بھارت ٹوٹ جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے