کالم

نریندر مودی، فاشسٹ اور بے ضمیر سیاست دان

دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کا وزیر اعظم بننا کسی بھی سیاستدان کیلئے ایک اعزاز کی بات ہوتی ہے۔ لیکن جب یہ عہدہ ایسے شخص کے پاس ہو جس کے دامن پر انسانی خون کے داغ ہوں، جس کی سیاست کی بنیاد نفرت، تقسیم اور تعصب پر رکھی گئی ہو، تو یہ اعزاز ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ نریندر مودی اسی سوالیہ نشان کا دوسرا نام ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے ماتھے پر آج ایک ایسا داغ ہے جسے وقت کی کوئی بارش دھو نہیں سکتی۔ وہ سیاست دان جو خود کو بھارت کا نجات دہندہ کہتے ہیں مگر حقیقت میں نفرت اور تعصب کی آگ میں جھلستے ایک ایسے رہنما ہیں جن کی سیاست کا دارومدار تقسیم اور خون پر ہے ۔مودی کی سیاسی زندگی پر سب سے گہرا داغ2002کے گجرات فسادات ہیں ۔ ہزاروں مسلمان شہید ہوئے، ہزاروں گھر جلائے گئے، اور لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے۔ مودی اس وقت ریاست کے وزیر اعلی تھے، مگر انہوں نے ریاستی مشینری کو روکنے کے بجائے آنکھیں بند کر لیں۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے انہیں براہِ راست ذمہ دار ٹھہرایا۔ اگرچہ بھارتی عدلیہ اور اداروں نے وقت گزرنے کے ساتھ یہ مقدمے دبا دیے، لیکن تاریخ اور متاثرین کا درد آج بھی انہیں معاف نہیں کر سکا۔ گجرات کا المیہ ایک ایسا انسانی المیہ ہے جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔2002 کے گجرات فسادات محض ایک سانحہ نہیں بلکہ ایک ایسا زخم ہیں جو ہر بار ہندو مسلم تعلقات کی بات آتے ہی پھر سے ہرا ہو جاتا ہے جب ہزاروں مسلمان جلادیے گئے، عورتوں کی عزتیں تار تار ہوئیں، بچے یتیم ہوئے اور بستیاں راکھ کا ڈھیر بن گئیں۔ مودی اس وقت وزیر اعلی تھے۔ کیا وہ کچھ نہ جانتے تھے؟ یا سب جانتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے رہے؟ تاریخ کے اوراق چیخ چیخ کر گواہی دیتے ہیں کہ یہ خاموشی محض کمزوری نہیں تھی، یہ بے ضمیری تھی۔وزیر اعظم بننے کے بعد مودی نے”سب کا ساتھ، سب کا وکاس”کے نعرے سے عوام کو دھوکا دیا، لیکن حقیقت میں انہوں نے آر ایس ایس کے ہندوتوا ایجنڈے کو عملی جامہ پہنایا۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ ، مسلم مخالف شہریت قانون(CAA)،این آر سی جیسے اقدامات اورمساجد و مدارس پر حملے اسی سوچ کی جھلک ہیں۔مودی کی پالیسیوں نے بھارت کے سیکولر چہرے کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ وزارتِ عظمی سنبھالنے کے بعد مودی نے جمہوریت کے چہرے پر مسکراہٹ کا نقاب چڑھایا، مگر حقیقت میں ان کے قدم آر ایس ایس کے نظریے کے نشان پر چلتے رہے۔کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ ہو یا شہریت کا کالا قانون، مساجد پر حملے ہوں یا این آر سی کی تلوار، ہر قدم پر مودی نے بھارت کے سیکولر آئین کو پامال کیا اور ایک زہریلے ہندوتوا ایجنڈے کو پروان چڑھایا۔جمہوریت وہاں زندہ رہتی ہے جہاں اختلاف زندہ ہو۔ لیکن مودی کے بھارت میں اختلاف جرم ہے۔ میڈیا کی زبان بندی، صحافیوں کا قتل، طلبہ اور دانشوروں کو جیلوں میں ڈال دینا، حتی کہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن جیسے اداروں کو سرکاری دبا کا غلام بنا دینایہ سب وہ حقائق ہیں جو بھارت کے "جمہوری چہرے”کو آئینہ دکھاتے ہیں۔ یہ سب محض سیاست نہیں بلکہ آمریت کے اشارے ہیں۔ مودی کے دور میں بھارت میں جمہوری ادارے کمزور ہوئے۔ میڈیا پر سنسرشپ مسلط کی گئی، اختلاف رائے رکھنے والوں کو جیلوں میں ڈالا گیا، اور دانشوروں کو "دیش دروہی” (غدار) قرار دیا گیا۔ عدلیہ اور الیکشن کمیشن جیسے ادارے بھی سرکاری دبا کے سامنے جھک گئے۔ بھارت جو کبھی دنیا کو جمہوریت کا نمونہ دکھاتا تھا، آج آمریت کی راہوں پر گامزن ہے۔ مودی دنیا کو سرمایہ کاری کے خواب دکھاتے ہیں، بیرونِ ملک جا کر بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، مگر بھارت کے کسان قرضوں تلے دب کر خودکشیاں کر رہے ہیں، نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں، اور غریب عوام مہنگائی کے بوجھ تلے پس رہے ہیں۔ پروپیگنڈا مشینری البتہ اتنی طاقتور ہے کہ ان سب تلخ حقائق پر پردہ ڈال کر مودی کو "وشو گرو” بنا کر پیش کرتی ہے۔ مودی کو بیرونی دنیا میں سرمایہ کار دوست قرار دیا جاتا ہے، لیکن بھارت کے اندر بے روزگاری عروج پر ہے، کسان خودکشیاں کر رہے ہیں، اور غریب عوام مہنگائی سے پس رہے ہیں۔ دوسری طرف میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے مودی کو "وشو گرو” کے طور پر پیش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ایک فاشسٹ رہنما کی چمکدار نقاب کے پیچھے چھپی مکروہ حقیقت ہے۔ مودی کی سیاست کو اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ "بے ضمیری کا چلتا پھرتا استعارہ” ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ نفرت ووٹ بناتی ہے، تعصب اقتدار دلاتا ہے، اور خوف حکومت کو مضبوط کرتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے قوم کو تقسیم کیا، انسانیت کو پامال کیا، اور اپنی انا کے بت کو پوجنے میں مصروف رہے۔ نریندر مودی کی سب سے بڑی کمزوری ان کی بے ضمیری ہے۔ وہ اپنے ملک کو تقسیم کر کے طاقت حاصل کرتے ہیں، نفرت کو ہوا دے کر ووٹ بٹورتے ہیں، اور انسانیت کو پسِ پشت ڈال کر اپنی انا کی تسکین کرتے ہیں۔ گجرات کے مظلوم ہوں یا کشمیر کے محصور، دہلی کے فسادات کے متاثرین ہوں یا شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے نوجوانمودی کی بے ضمیری ہر جگہ عیاں ہے۔نریندر مودی کی ناکام سیاست اور بے ضمیر رویے نے پڑوسی ممالک میں بھی بے چینی اور بدامنی کی فضا قائم کرنے میں پورا پورا کردار ادا کیا۔ پاکستان کے ساتھ خصوصی عناد کی بنا پر پاکستانی سرحدوں پر حالیہ جنگ مسلط کی، سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دیا۔ مودی نے افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی ، بی ایل اے اور فتنہ الخوارج کی پشت پناہی کر کے پاک افغان تعلقات کو بھی شدید متاثر کیا اور اپنی روایتی ہٹ دھرمی کو روا رکھتے ہوئے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں پانی چھوڑا جس سے اس وقت پاکستان کو ایک بہت بڑے سیلاب کا سامنا ہے۔ بہت سی جانوں کا ضیاع ہوا جبکہ جانوروں ، فصلوں اور ترقیاتی منصوبوں کو نقصان پہنچا۔17 ستمبر1950 میں پیدا ہونے والا یہ بے ضمیر شخص آج اپنا جنم دن تو منا رہا ہے ، مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ اپنے چہرے سے خود فریبی کا چشمہ کب اتارتا ہے۔ آج چاہے ان کے حامی انہیں بھارت کا عظیم لیڈر کہیں، کل تاریخ انہیں کس نظر سے دیکھے گی؟ تاریخ اندھی نہیں ہوتی۔ یہ سوال ہمیشہ ان کے ساتھ جڑا رہے گا کہ ایک شخص نے اقتدار کی خاطر کتنی بستیاں جلنے دیں، کتنے خواب مسلے، اور کتنی زندگیاں برباد کیں۔نریندر مودی کا اصل چہرہ ایک بے ضمیر، فاشسٹ اور انتہا پسند رہنما کا ہیایسا رہنما جس نے بھارت کی روح کو زخمی کر دیا۔ وقت کے ساتھ سیاست دان بدل جاتے ہیں، لیکن تاریخ کے فیصلے کبھی نہیں بدلتے۔ اور تاریخ نے مودی کے چہرے پر فاشزم کا وہ نقاب ہمیشہ کے لیے ثبت کر دیا ہے۔ مودی کے چاہنے والے چاہے انہیں بھارت کا نجات دہندہ کہیں، لیکن تاریخ اور اقوام عالم انہیں ایک ایسے حکمران کے طور پر یاد کریں گی جس نے جمہوریت کا گلا گھونٹا، اقوام کو تقسیم کیا، اور اقتدار کی خاطر انسانیت کا خون بہانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ نریندر مودی کا اصل چہرہ ایک فاشسٹ، انتہا پسند اور بے ضمیر رہنما کا ہیجسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے