کالم

نظام امتحانات مےں تبدےلی

اےک قومی روزنامے کے مطابق ملک بھر مےں مےٹرک ،انٹر کا امتحانی نظام مکمل طور پر تبدےل کر دےا گےا ہے ۔پاکستان مےں اصلاح نظام تعلےم سے وابستہ ارباب اختےار تعلےم کے مےدان مےں انقلابی تبدےلےاں لانے پر کمر بستہ ہےں اور محدود ذرائع مےں بھی نئے نظام کا نفاذ بزور طاقت چاہتے ہےں ۔اس تبدےلی کے محرک اہل دانش کا کہنا ہے کہ سابقہ طرےقہ کار موجودہ ترقی ےافتہ دور مےں ترقی ےافتہ ممالک کے مقابلے مےں فرسودہ اور ناقابل عمل ہو چکا ہے ۔ان کے مطابق نئے نظام کا مقصد طلباءکو اپنی صلاحےتوں سے آگاہی حاصل کرنے مےں مدد دےنا اور ملک کی معاشرتی و معاشی ترقی مےں باعمل کردار ادا کرنے کےلئے متحرک انسان بنانا ہے ۔ہمےشہ وطن عزےز مےں بےشتر فےصلے اکابرےن اختےار اپنی صوابدےد پر کرتے آئے ہےں ۔زمےنی حقائق سے ہمےشہ چشم پوشی کی جاتی رہی ۔نتےجتاً خلفشار پےدا ہونا ےقےنی امر تھا ۔پالےسےاں بنانا چنداں مشکل نہےں ہوتا ۔چند بےوروکرےٹس اور سےاسی زعما بےٹھ کر حسےن ترےن پالےسےاں بنا لےا کرتے ہےں لےکن بڑے فےصلے خواہ وہ تعلےمی حوالے سے ہوں ےا اقتصادی حوالے سے مکالمے کی فضا چاہتے ہےں ۔اےسے فےصلے ہی دےرپا اور استحکام بخش ہوتے ہےں ۔اس طرح اجتماعی دانش کو بروئے کار آنے کے مواقع ملتے ہےں ۔مشاورت سے کئے گئے فےصلے صحت مند توازن کو قوت فراہم کرتے ہےں اور جو بحران پےدا ہی نہےں ہونے دےتے ۔پالےسےاں مرتب کرتے وقت ان لوگوں سے مشورہ لےا جانا چاہےے جو واقعی مشاورت کے قابل ہوں ۔ان مےں ماہرےن تعلےم کے ساتھ ساتھ سائےکالوجسٹ کو بھی شامل کےا جائے جو اپنے قےمتی تجربات کی روشنی مےں مرتبےن کو اپنی قےمتی آراءسے آگاہ کر سکےں اور زمےنی حقائق کو مد نظر رکھ کر پالےسی بنائےں ۔نظام تعلےم کو متاثر کرنے والا اےک اہم عنصر امتحانات ہے۔ملک بھر مےں مےٹرک ،انٹر کا امتحانی نظام جو مکمل طور پر تبدےل کر دےا گےا ہے اس نئے نظام کے مطابق مےٹرک اور انٹر کے امتحان سال مےں دو دفعہ لئے جائےں گے ۔پہلا امتحان اپرےل اور مئی جبکہ دوسرا اکتوبر اور نومبر مےں لےا جائے گا ۔نئے گرےڈنگ سسٹم مےں کوئی فےل نہےں ہو گا جبکہ پرائےوےٹ طلبہ مےٹرک اور انٹر،سائنس مےں بھی کر سکےں گے ۔اےف گرےڈ ختم کر دےا گےا ہے جبکہ 2024ءسے مارک شےٹ (رزلٹ کارڈ) پر نمبر بھی نہےں لکھے جائےں گے ۔معزز قارئےن اگر بنظر غائر دےکھا جائے تو بچوں کےلئے سال مےں دوبار امتحان مےں بےٹھنا ان مےں نفسےاتی الجھاﺅ پےدا کر سکتا ہے ۔اس کے علاوہ نئے نظام کے تحت بچوں کے درمےان مقابلے کا رجحان بھی ختم ہو جائے گا ۔جب محنت کرنے والے اور نہ پڑھنے والے بچے دونوں ہی کامےاب قرار پائےں گے اور رزلٹ کارڈ پر حاصل کردہ نمبر بھی درج نہےں ہوں گے تو ےہ صورتحال گھوڑے گدھے کو اےک ہی اصطبل مےں باندھنے کے مترادف ہو گا ۔اس سے جہاں بہت سی قباحتےں پےدا ہوں گی وہےں محنت کرنے والے بچوں کی حق تلفی بھی ہو گی جو کسی طرح بھی قابل ستائش نہےں ہو گی ۔ماضی مےں بھی نظام امتحانات کے حوالہ سے اےک نےا انقلابی نظام متعارف کراےاگےا ۔ےہ تبدےلی لانے کےلئے ڈائرےکٹورےٹ آف سٹاف نے پورے اےک سال تک کام کےا ۔اس منصوبہ کے روح رواں محمد اختر اےجوکےشن منسٹر تھے ۔ہماری ےہ عادت ہے کہ ہم مغرب کے ہر عمل کی بغےر جانچے پرکھے نقل کرتے ہےں ۔ہمارے پالےسی سازوں کو اپنے ملک کے حالات ،ماحول ،وسائل اور اقتصادی حالات مد نظر رکھ کر پالےسےاں مرتب کرنے کی عادت ہی نہےں ۔کوئی اپنے پالےسی ساز ارباب اختےار سے ےہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا تھا کہ آےا جن ممالک سے ےہ جائزے کا نظام لےا گےا ان جےسی سہولتےں پاکستان مےں موجود تھےں ۔ےہی سبب رہا کہ قےام پاکستان سے لےکر آج تک ہم نے تعلےمی شعبہ مےں کوئی بہتری نہےں دکھائی ۔اس وقت ےہ نےا لاگو کےاگےا نظام امتحان بری طرح ناکام ہوا ۔پنجاب اےگزامےنےشن کمےشن کے جاری کردہ پنجم اور ہشتم کے نتائج پر اےک حشر برپا رہا ۔بہت سے اےسے سکول تھے جن مےں تعلےم حاصل کرنے والے طلباءکو شمولےت امتحان کے بغےر اول پوزےشن سے نواز دےا گےا ۔اس نئے نظام امتحانات کے نفاذ سے قبل تو اےسے طلباءکو رعاےتی مارکس دے کر پاس کر دےا جاتا تھا جو محض اےک مضمون مےں چند نمبروں سے فےل ہو رہے ہوتے لےکن اس نئے نظام کے نفاذ کے بعد اےسے ہزاروں طلباءوطالبات جو چار مضامےن مےں اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوئے لےکن اےک مضمون مےں دو تےن نمبروں کی کمی رہ گئی ان کو فےل شو کر دےا گےا ۔جماعت ہشتم مےں پی ای سی نے 31مارچ کے دن جو طلباءپاس ڈکلئےر کےے ےکم اپرےل کو پی ای سی کے وےب سائٹ پر ان کے فےل ہونے کے رزلٹ شو کےے گئے ۔پی ای سی کے پانچوےں اور آٹھوےں جماعت کے نتائج کی داستانےں ہر سو بکھری پڑی رہےں ۔پی ای سی سالوں بعد بھی اپنی کوتاہےاں اور غلطےاں دور نہےں کر سکا ۔پی ای سی بعد ازاں پنجم اور ہشتم کے پورے مضامےن کے امتحان لےنے سے بھی قاصر رہا ۔سکولوں مےں نظام امتحانات کے حوالے سے جو پالےسی لاگو کی گئی اس کے مطابق نرسری سے چہارم اور ششم سے ہفتم تک کسی بھی طالب علم کو فےل نہ کرنے کے واضح احکامات جاری کےے گئے ۔جو طالب علم اپنا نام لکھنے کی صلا حےت سے ہی محروم کےوں نہ ہو اسے پاس کرنا ضروری قرار دےا گےا ۔طلباءکے والدےن کا موقف تھا کہ اس پالےسی نے طلباءکو لاپرواہ بنا دےا ہے ۔انہوں نے اپنی توجہ تعلےم سے ہٹا دی ہے ۔وہ محنت نہےں کرتے کےونکہ وہ سمجھتے ہےں کہ وہ محنت کے بغےر بھی پاس ہو جائےں گے ۔ناقص منصوبہ بندی کے باعث سوالےہ پرچے بھی قبل از وقت آﺅٹ ہوتے رہے ۔ پھر حکومت نے پی ای سی کو ختم کرنے کے ہی احکامات صادر کر دئےے ۔ہمارے تعلےمی اداروں مےں تو ہر سال طلباءکو بروقت کتب کی ترسےل کو ہی ممکن نہےں بناےا جاتا ۔نئی کلاسوں کے اجراءاور تنظےمی بنےادوں پر تعلےمی سال کے آغاز پر نصابی کتب کی بروقت فراہمی کے بغےر تعلےمی اداروں کےلئے نصابی سر گرمےاں شروع کرنا اور جاری رکھنا ممکن ہی نہےں رہتا جس سے ان کے سالانہ نتائج پر ناخوشگوار اثرات مرتب ہونا ےقےنی ہوتا ہے ۔وقت کی کمی کے باعث طلباءسالانہ امتحانات تک کورس ہی ختم نہےں کر پاتے جس سے ان کی ناکامی کے امکانات بڑھ جاتے ہےں ۔ماضی کی سابقہ حکومتوں نے اپنے ادوار مےں تعلےم کی روشنی عام کرنے کےلئے مختلف پروگرام شروع کےے ۔جن مےں تعلےم بالغاں ،نئی روشنی سکول ،مسجد مکتب سکول ،پرائمری سے انگلش مےڈےم ،لڑکوں اور لڑکےوں کے سکول ےکجا کرنے کا تجربہ ،100فےصد بچوں کا سکولوں مےں داخلہ اور رجسٹرےشن مفت ،پرائےوےٹ اداروں کی نےشلائزےشن ،پھر امتحانات کے شےڈول مےں تبدےلی ،پرائمری کی سطح پر انگلش مےڈےم کا تجربہ اور اس مےں خاطر خواہ نتائج کے حصول مےں ناکامی کے بعد دوبارہ اردو مےڈےم کے نفاذ کا فےصلہ ۔افسوس کہ کوئی تجربہ کامےاب نہ ہونے پر دوبارہ واپسی کا سفر ہی وطن عزےز کے طلباءکا مقدر بنا۔
دوڑ پےچھے کی طرف اے گردش اےام تو
تجربے اس لئے تبدےلی کا باعث نہےں بنتے کہ ان مےں سنجےدگی کم ہوتی ہے اور زمےنی حقائق سے ہمےشہ چشم پوشی کی جاتی ہے ۔گورنمنٹ کی نت نئی تعلےمی پالےسےاں بچوں کے مستقبل کو تارےک کرنے کے مترادف ہےں ۔ارباب اختےار سے گزارش ہے کہ وطن عزےز کو اےک لےبارٹری سمجھ کر اسے مستقبل کی بھےنٹ نہ چڑھائےں بلکہ زمےنی حقائق کو مد نظر رکھ کر تعلےم دوست حکمت عملی اختےار کرےں جس سے مستقبل کے نونہالان وطن ہمےشہ مستفےد ہوتے رہےں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri