کالم

نفرتوں کا خاتمہ کرناہوگا

x بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست اس وقت جس انتہا پسندی کا شکار ہوچکی ہے، اس کی وجہ سے قومی اتحاد اور وحدت پارہ پارہ ہوتی نظر ”آرہی“ ہے۔ ”سیاست“ تو ”تکار“ کے کلچر کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اب ”گالی“ اور ”گولی“ کا چلن اختیار کر چکی ہے۔ تہمت بازی ،نفرتوں اور عدم برداشت کا رویہ ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فلسفے اور افکار مطابق جمہوری اصولوں پر عمل کرنے سے ہی مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اس کےلئے ہمیں ہر طرح کے شدت پسندوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا کیونکہ شدت پسند ملک اور معاشرے کیلئے خطرہ ہیں۔امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بھی اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں زہریلی پولرائزیشن کے خاتمے کے لیے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی 8فروری کے بعد کامیاب ہوکر تمام سیاسی پارٹیوں کو میز پر لائے گی تاکہ نفرتوں کا خاتمہ ممکن بناکر مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھی جائے۔افراد میں اختلاف رائے معاشرے کی تنوع اور ترقی کا باعث بنتا ہے۔گالم گلوچ اور تشدد موجودہ انتشار اور تقسیم کی وجہ ہے جو گزشتہ چند سالوں سے خوفناک شکل اختیار کرگیا ہے ، حکمران پارٹیوں نے سیاسی و معاشرتی تقسیم بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا،جماعت اسلامی اسے ختم کرے گی۔
سیاسی قیادت معاشرے کی سیاسی تربیت کی ذمے دار ہوتی ہے۔ اچھی سیاسی قیادت ملک کو اچھی جمہوریت دیتی ہے۔ بری سیاسی قیادت معاشرے کو بری جمہوریت ہی دیتی ہے۔ جب تک سیاسی قیادت تہذیب یا فتہ نہیں ہوگی تب تک سیاست تہذیب یافتہ نہیں ہو سکتی۔ ایک دوسرے کا احترام سیاست کی بنیاد ہے۔ لیکن ہم نے گالم گلوچ کو سیاست کی بنیاد بنا دیا ہے۔ اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا احترام ہی سیاست کہلاتی ہے۔ اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا ہی سیاست ہے۔
اس وقت ملک کی آبادی 25کروڑ جو آئندہ دو تین دہائیوں میں دوگنا ہوجائے گی۔ آبادی کی ضروریات کے مطابق خوراک ،تعلیم اور صحت سمیت دیگر بنیادی ضرورتوں کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے جو سابقہ حکمرانوں نے کبھی پوری نہیں کی۔ اس وقت پونے تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ سترفیصد آبادی کو صاف پانی نہیں ملتا، صحت کا پورا نظام درہم برہم ہے۔ کمزوور کو انصاف نہیں ملتا، قانون پر عملدرآمد نہیں ہورہا ، کرپشن عام ہے، سابقہ حکمرانوں نے کرپشن کی اور احتساب کے اداروں کو مذاق بنا کر رکھ دیا۔ جماعت اسلامی کا ان تمام مسائل کے حل کے لیے ہوم ورک مکمل ہے، عوام 8فروری کو ترازو کو ووٹ دے، کامیاب ہوکر روشن خوشحال پاکستان کی جانب سفر کا آغاز کریں گے۔
عوام نے ن لیگ ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے علاوہ ڈکٹیٹروں کی حکومتوں کو بھی دیکھ لیا۔ ان حکمرانوں نے ملک میں سوائے بے روزگاری، مہنگائی اور غربت میں اضافہ کے اور کوئی کام نہیں کیا۔ سابقہ حکومتوں نے کشمیرپر سودے بازی کی، یہ فلسطینیوں کے حق میں نہیں بولے،انہوں نے قوم سے وعدے کرکے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ جماعت اسلامی نے اس لیے سابقہ اتحادی حکومت میں شمولیت اختیار نہیں کی کہ یہ باربار آزمائے ہوئے لوگ ہیں، عوام نے انہیں سالہا سال موقع دیا مگر یہ ہردفعہ قوم سے دھوکا کرکے ذاتی مفادات کی حفاظت کرتے رہے۔ آج روایتی اور سوشل میڈیا نے حکمران اشرافیہ کے چہروں سے نقاب اتار دیے ہیں ، میڈیا کوسلام پیش کرتا ہوں اور نوجوانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ترازو کے حق میں مہم چلائیں ، جماعت اسلامی ہی واحد آپشن ہے، اگر عوام کلین گرین کرپشن فری پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں تو الیکشن کے دن آزمودہ پارٹیوں کی بجائے جماعت اسلامی کے امیدواروں کوووٹ دیں۔
سیاست ایشوز پر ہونی چاہئے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ عوام کے مسائل کا ہی گالم گلوچ کی اس سیاست میں بری طرح جھٹکا ہوچکا ہے، اول تو سیاستدان عوامی مسائل کا ذکر ہی بہت کم کرتے ہیں اور اگر کبھی کبھار ایسا کر بھی دیں تو میڈیا میں اِن باتوں کی پذیرائی ہی نہیں ہوتی ۔یاسی جلسوں کا کلچر بھی بالکل بدل چکا ہے، مقررین اپنے لیڈر کو خوش کرنے کے لئے اور لیڈر کسی حاضر یا غائب فریق کی خوشنودی کی خاطر شعلہ بار زبان کا استعمال تو کیا ہی کرتے ہیں اب بازار کی بولی ٹھولی اور اخلاق سے گری ہوئی زبان کا استعمال بھی عام ہوگیا ہے، سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ منبر و محراب کے وارث بھی جنہیں سیاست کرنے کا تازہ تازہ شوق چرایا ہے گالیوں کی اس بہتی گنگا میں نہ صرف اشنان کررہے ہیں بلکہ دو چار ہاتھ آگے ہی بڑھ گئے ہیں کوئی اس پر توجہ دلائے تو اسے بھی جوابی گالیاں سننے کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے، بدقسمتی سے ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ سلسلہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جارہا ہے اور بظاہر کوئی امید بھی نظر نہیں آتی کہ بدزبانی کے اِن بہتے دھاروں کے سامنے کوئی بند باندھا جاسکے گا یا نہیں۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے